0
Sunday 1 May 2022 02:26

ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنماء نثار فیصی کا یوم القدس کے حوالے سے خصوصی انٹرویو

ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنماء نثار فیصی کا یوم القدس کے حوالے سے خصوصی انٹرویو
نثار علی فیضی کا بنیادی تعلق گلگت بلتستان سے ہے، وہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری تعلیم کی حیثیت سے ملی و قومی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ قبل ازیں وہ ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری فلاح و بہبود بھی رہ چکے ہیں۔ نجی زندگی میں شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں اور ایک اچھے معلم کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں، جناب نثار علی فیضی ملکی و بین الاقوامی حالات پر اچھی نظر رکھتے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے عالمی یوم القدس کے حوالے سے نثار فیضی سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: غاصب صیہونی افواج کیجانب سے ایک مرتبہ پھر مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور نہتے فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے، کیا کہیں گے۔؟
نثار علی فیضی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، سب سے پہلے تو میں ’’اسلام ٹائمز‘‘ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ایک اہم موضوع پر مجھے اظہار خیال کا موقع دیا، فلسطین میں غاصب صیہونی افواج کی جانب سے ایک مرتبہ پھر مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور نہتے فلسطینیوں پر مظالم اس بات کا ثبوت ہیں کہ مضبوط صیہونی افواج کے قدم ڈگمگا رہے ہیں اور اس بدحواسی کے عالم میں انہوں نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ وہ نہتے فلسطینیوں پر گولیاں برساتے ہیں، جو لوگ ماہ مقدس میں عبادات بجا لانے کیلئے مسجد اقصیٰ میں اکٹھے ہوتے ہیں، ان پر یہ فائرنگ کرتے ہیں، ان پر لاٹھی چارج کرتے ہیں، ان پر یہ ظلم و ستم کرتے ہیں، ان کو یہ گرفتار کرتے ہیں، انہیں جیلوں میں ڈالتے ہیں۔ اس ظلم و ستم کے ذریعے سے وہ اپنے جھوٹے رعب و دبدبہ کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہ اب ان کی آخری کوشش ہے، اس وقت ان کے ظلم کا سحر ٹوٹ چکا ہے اور فلسطینی عوام اس ظلم کے سامنے اپنے مضبوط ارادے اور قربانیوں کیساتھ اپنی آزادی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں اور منزل کے قریب تر ہیں۔

اسلام ٹائمز: مسلم ممالک اپنے سیاسی مسائل کو تو سنجیدگی سے لیتے ہیں، مگر امت مسلمہ کے اس اہم مسئلہ (قبلہ اول) کیجانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی، کیا یہ امریکہ و اسرائیل کا خوف ہے یا کچھ اور۔؟
نثار علی فیضی:
اس حوالے سے مسلم ممالک کی ترجیح میں کمی کی اصل وجہ یہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران اپنے مفادات کو امریکہ و اسرائیل کی آشیرباد میں پوشیدہ سمجھتے ہیں،جبکہ یہ ان کی ایک خام خیالی ہے، تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے، تمام ایسے مسلم ممالک جہاں ڈکٹیٹر حکمرانوں نے امریکہ کی حد سے زیادہ خدمت کی، اپنی تمام تر اس خدمت کے باوجود ان کا انجام پوری دنیا کیلئے ایک مثال کے طور پر سامنے آیا کہ کس طرح امریکہ جب اپنا کام لے لیتا ہے تو انہیں ہزیمت سے دوچار کرتا ہے۔ تو مسلم حکمرانوں کی یہ ایک غلط فہمی اور اشتباہ ہے، اسی وجہ سے وہ دیگر مسائل کی طرف تو بات کرتے ہیں، لیکن بیت المقدس کی بازیابی کی طرف وہ کوئی توجہ نہیں دیتے، جبکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اگر مسلم حکمران اس معاملہ پر اپنی آواز اٹھائیں اور کردار ادا کریں تو یقیناً ان کی حکمرانی کو بھی دوام پہنچ سکتا ہے اور عوام کے اندر بھی ان کا اچھا تشخص اجاگر ہوسکتا ہے۔ بہرحال پاکستان نے اس سلسلہ میں گذشتہ کچھ عرصہ میں ایک اچھا کردار ادا کیا ہے، خود پاکستان کے بانیان قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا موقف فلسطین اور قبلہ اول کے حوالے سے واضح ہے، پاکستان وہ واحد ملک ہے کہ جس کے پاسپورٹ پر اسرائیل کو قبول نہ کرنے کا واضح پیغام لکھا ہوا ہے۔ البتہ حکومتوں کے آنے جانے کے بعد اس موقف میں کوئی کمی یا زیادتی ہوتی ہے، تاہم پاکستان کے عوام کے دل فلسطین کی عوام کیساتھ دھڑکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بعض مسلم ممالک کیجانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے بعد آزادی قدس کی تحریک پر کیا اثرات مرتب ہوتے دیکھتے ہیں۔؟
نثار علی فیضی:
اسرائیل کو تسلیم کرنے کی خیانت جن مسلم ممالک نے کی ہے، انہیں وقتی طور پر تو ممکن ہے کہ کچھ ذاتی مفادات حاصل ہوئے ہوں، لیکن اس وقت جس طرح رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے بھی فرمایا کہ دنیا اس وقت ری شیپ ہو رہی ہے، طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے، لہذا وہ تمام مسلم حکمران جو اس صورتحال میں بھی پس پردہ اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں، تو وہ ایسی مثال ہے کہ وہ ایک ایسی کشتی میں سوار ہیں کہ جس میں سوراخ ہوچکا ہے، اسرائیل کی نابودی تو ان شاء اللہ یقینی ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلم حکمران جو اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں، ان کا انجام بھی اسرائیل کے انجام کے ساتھ ہی ہوگا۔

اسلام ٹائمز: شہید قدس شہید قاسم سلیمانی کی آزادی قبلہ اول کیلئے کی جانیوالی کوششیں اور آج مقاومتی قوتوں کی جدوجہد کے تناظر میں قدس کی آزادی آپکو کتنی دور نظر آتی ہے۔؟
نثار علی فیضی:
جب ہم مسئلہ فلسطین کی طرف دیکھتے ہیں، قبلہ اول اور مسجد اقصیٰ کی بازیابی کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں انقلاب اسلامی ایران عالم اسلام میں وہ مملکت نظر آتی ہے، جس کی لیڈرشپ نے سب سے زیادہ اس مسئلہ کو مسلم دنیا میں اجاگر کیا، نہ صرف اس پر موثر آواز اٹھائی بلکہ عملاً فلسطین کے مظلومین، مجاہدین اور فلسطین کی مقاومتی تنظیموں کا ساتھ دیا۔ مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دینے کیلئے رہبر کبیر حضرت امام خمینی (رہ) نے جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر منانے کی کال دی، جو الحمد اللہ کئی سالوں سے پوری دنیا میں منایا جا رہا ہے۔ گذشتہ روز بھی یوم القدس کے سلسلے میں جو پوری دنیا میں مظاہرے ہوئے، یہ سب بہرحال انقلاب اسلامی کے مرہون منت ہے۔ انقلاب اسلامی کی فیوض و برکات میں اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو شہید قدس، شہید قاسم سلیمانی کا کردار روز روشن کی طرح بے حد نمایاں نظر آتا ہے۔ شہید قاسم سلیمانی کو فلسطین کی قیادت کی جانب سے شہید قدس قرار دیا گیا، ان کی پوری زندگی فلسطینیوں کی حمایت میں گزری۔

شہید سلیمانی نے فلسطینیوں کی جا کر مدد کی، آج فلسطین مقاومت کا ایک استعارہ بن چکا ہے، فلسطین اس وقت اسرائیل کی مضبوط ترین فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا مقابلہ کر رہا ہے، فلسطین کو اس نہج پر پہنچانے میں شہید قاسم سلیمانی نے کردار ادا کیا ہے، یہ اس کا نتیجہ ہے کہ آج آپ دیکھتے ہیں کہ غزہ ہمیشہ ایک آسان ہدف سمجھا جاتا تھا، جسے اسرائیل نشانہ بنا کر فلسطین کی تحریک اور مقاومت کو دبانے کی کوشش کرتا تھا، آج اسی غزہ سے میزائل تل ابیب پر مارے جاتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ آج فلسطینی قوم مجموعی طور پر مقاومت پر متحد ہوچکی ہے کہ قبلہ اول کی آزادی صرف مقاومت کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ الحمد اللہ اس سب کا سہرا شہید قدس، شہید سردار قاسم سلیمانی کے سر جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اس مرتبہ یوم القدس دنیائے اسلام میں پہلے سے زیادہ جوش و جذبے سے منایا گیا، آپکے خیال میں آزادی قدس کی تحریک اسی طرح احتجاج کیصورت میں ہی آگے بڑھنی چاہیئے یا مسلم ممالک کو اس سے کچھ بڑھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔؟
نثار علی فیضی:
دنیائے اسلام میں ہونے والے احتجاج کا بلاشبہ اثر فلسطین کی مقاومتی تحریک پر پڑتا ہے اور اس سال بھی پوری دنیا میں قدس کی حمایت میں جو مظاہرے ہوئے ہیں، وہ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ عالم اسلام قبلہ اول کی بازیابی کیلئے اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہے۔ انقلاب اسلامی کے سربراہ سید علی خامنہ ای نے بھی اس سلسلے میں فرمایا ہے کہ یہ مظاہرے فلسطین میں جاری تحریک کو ایک حوصلہ دیتے ہیں، مجاہدین کی ہمت بندھاتے ہیں اور وہاں بے سر و سامانی کی حالت میں بچے اور جوان اسرائیل کا مقابلہ کر رہے ہیں، ان کی قوت و ارادے کو مضبوط کرتے ہیں۔ یقیناً اس سلسلے میں مسلم حکمرانوں کو اس سے بڑھ کر ذمہ داری ادا کرنی چاہیئے، یہ ذمہ داری حکمرانوں کی ہے کہ وہ عوام کے جذبات کی ترجمانی کریں اور قدس کے سلسلے میں پوری دنیا میں جو احتجاجات ہوتے ہیں، عوام تو اس میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ان جذبات کیساتھ ساتھ ان ممالک کے حکمرانوں کو بھی قبلہ اول کی بازیابی کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔

مسلم حکمرانوں کو فلسطین میں جاری تحریک کی مالی لحاظ سے سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے، فلسطین کیخلاف امریکہ و اسرائیل کی لابنگ کیخلاف بھی کردار ادا کرنا چاہیئے، انسانی حقوق کے فورمز پر بات کرنی چاہیئے۔ پوری دنیا یوکرین پر ہونے والے ظلم و ستم پر تو بات کرتی ہے، لیکن فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے عرصہ دراز سے جاری ظلم و ستم پر عالمی میڈیا کیوں خاموش رہتا ہے۔؟ مسلم حکمرانوں کو اس مسئلہ پر حتیٰ الامکان اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ ان شاء اللہ قبلہ اول کی بازیابی قریب ہے، فلسطین مکمل طور پر آزاد ہونے کے قریب ہے، اس وقت من حیث القوم تمام مسلم ممالک کو آگے بڑھ کر فلسطین کا ساتھ دینا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 992038
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش