0
Tuesday 28 Jun 2022 04:12

پی ٹی آئی میں شامل ہوا نہ عمران خان سے ملاقات ہوئی، جنرل ظہیر الاسلام

پی ٹی آئی میں شامل ہوا نہ عمران خان سے ملاقات ہوئی، جنرل ظہیر الاسلام
اسلام ٹائمز۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے کہا ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی ہے اور نہ انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی ہے۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حال ہی میں اپنے آبائی گائوں کہوٹہ میں مقامی بااثر افراد اور بزرگوں سے ملاقات کی، جس میں کمیونٹی نے آنے والے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے پی پی 7 راولپنڈی کے امیدوار کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ برادری کا فیصلہ تھا اور اس کا حصہ ہونے کی حیثیت سے میں نے فیصلے کا اعلان کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اجلاس میں ان کی موجودگی کو سوشل میڈیا پر غلط رنگ دے کر پیش کیا گیا ہے۔ جنرل ظہیر نے کہا کہ انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور نہ عمران خان سے ملاقات ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی گذشتہ چند سال سے عمران خان سے ملاقات نہیں ہوئی، کم از کم ان کے وزیراعظم بننے کے بعد سے بالکل نہیں ہوئی۔ جب ان سے مستقبل میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ جنرل ظہیر کی کہوٹہ میں پی ٹی آئی کے اجلاس میں شرکت کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔ کئی لوگوں نے جنرل ظہیر کا پی ٹی آئی میں شمولیت پر خیر مقدم کیا اور وہ تصاویر شیئر کیں، جن میں ظہیر اور صداقت کو ایک دوسرے کے ساتھ قریبی بات چیت کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

2015ء کے آخری میں اُس وقت کے وزیر دفاع خواجہ آصف (جو موجودہ حکومت میں دوبارہ اسی عہدے پر ہیں) نے ایک ٹی وی شو میں جنرل ظہیر الاسلام کا نام لے کر 2014ء میں پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے دھرنوں کے دوران نواز شریف کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں ان کے مبینہ کردار کے حوالے سے بات کی تھی۔ خواجہ آصف نے کہا تھا کہ حکومت کیخلاف ’’لندن پلان‘‘ سازش کے پیچھے جنرل ظہیر کا ہاتھ تھا۔ حکمرانوں کی بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی ملاقاتوں میں جو کچھ بھی زیر بحث آ رہا تھا، اسے وزیر دفاع نے کھول کر سب کے سامنے پیش کر دیا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ 2014ء میں نواز شریف حکومت کیخلاف لندن پلان کے پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے ڈی جی آئی ایس آئی (جنرل شجاع پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام) کا ہاتھ تھا۔ پاشا اور ظہیر پر الزام تھا کہ انہوں نے 2011ء کے بعد خفیہ طور پر پی ٹی آئی کو مقبول بنانے میں اس کی معاونت کی تھی۔

جنرل ظہیر ایک مرتبہ پھر اس وقت تنازع کا مرکز بن کر سامنے آئے، جب نواز شریف نے پہلی مرتبہ کھل کر دعویٰ کیا تھا کہ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیر الاسلام نے 2014ء کے حکومت مخالفت دھرنوں کے دوران آدھی رات کو انہیں مستعفی ہونے کا پیغام بھجوایا تھا۔ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں نواز شریف نے نون لیگ کے ارکان کو بتایا، ’’مجھے آدھی رات کو پیغام بھیجا گیا اور وہ یہ تھا کہ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ کو نتائج بھگتنا ہوں گے اور مارشل لاء بھی نافذ کیا جا سکتا ہے۔‘‘ اس پر نواز شریف کا جواب تھا، ’’آپ کو جو کرنا ہے کر لیں، مگر میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔‘‘ تاہم، نواز شریف نے اُس شخص کا نام نہیں بتایا، جو ڈی جی آئی ایس آئی کا پیغام لیکر آیا تھا۔ نواز شریف کے بیان کے جواب میں جنرل ظہیر نے میڈیا کو بتایا تھا کہ انہوں نے کبھی اُس وقت کے وزیراعظم (نواز شریف) سے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا۔انہوں نے دوٹوک الفاظ میں انکار کیا تھا کہ انہوں نے کسی شخص کے ذریعے وزیراعظم نواز شریف کو مستعفی ہونے کا پیغام بھیجا تھا، یہ سب باتیں غلط ہیں۔ جنرل ظہیر نے اس کی بجائے اصرار کیا تھا کہ 2014ء کے دھرنوں کے دوران ہر موقع پر انہوں نے نون لیگ کی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ سیاسی انداز سے نمٹیں، تاکہ احتجاج ختم ہوسکے۔
خبر کا کوڈ : 1001522
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش