0
Saturday 24 Sep 2011 12:03

انقلاب اسلامی ایران سے نوجوانوں کو نئی فکری جہت ملی، خط ولایت فقیہ آئی ایس او کا طرہء امتیاز ہے، محفل مذاکرہ

انقلاب اسلامی ایران سے نوجوانوں کو نئی فکری جہت ملی، خط ولایت فقیہ آئی ایس او کا طرہء امتیاز ہے، محفل مذاکرہ
لاہور:اسلام ٹائمز۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کا 39واں ارتقاء تنظیم و دفاع وطن کنونشن جامعتہ المنتظر ماڈل ٹاون لاہور میں جاری ہے۔ کنونشن کے پہلے روز کی چوتھی نشست میں تنظیم کے سابق مرکزی صدور نے محفل مذاکرہ میں شریک ہو کر اپنے اپنے ادوار کے تجربات، مشکلات اور کارکردگی سے آگاہ کیا۔ سابق مرکزی صدور میں سے ملک اعجاز حسین، ناصر عبا س شیرازی، یافث نوید ہاشمی، عارف حسین قنبری اور سابق مرکزی نائب صدر زاہد علی خان اس اہم نشست میں شریک ہوئے۔
سینیئر برادران نے بتایا کہ جب نوجوان بے راہروی کا شکار ہونے لگے تو انہیں تعلیمات قرآن و سیرت اہل بیت کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کے قابل بنانے کے لئے ایک تنظیم قائم کرنا ضروری سمجھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ چند نوجوانوں کی ٹیم علماء کی سرپرستی میں اکٹھی ہوئی اور لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں میں پہلے سے کام کرنے والی شیعہ طلباء تنظیموں کو ضم کر کے آئی ایس او کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ 1979ء میں امام خمینی رہ کی قیادت میں ایران میں آنے والے انقلاب اسلامی سے نوجوانوں کو نئی فکر اور سمت ملی۔ اس سے آئی ایس او کی ذمہ داریوں کے ساتھ مشکلات بھی بڑھیں۔ صر ف تنظیم ہی نہیں علماء کی بڑی تعداد روایتی انداز تبلیغ اور ذاکری سے ہٹ کر اس کے فکری، تربیتی اور اخلاقی پہلوں کی طرف بھی متوجہ ہوئے۔ جس سے آئی ایس او کو حوصلہ ملا۔
سابق صدور نے اپنے جونئیرز کو بتایا کہ ولایت فقیہ دین کی اساس ہے۔ جس نے حزب اللہ اور آئی ایس او جیسی الٰہی تنظیمیں پیدا کیں اور آج ولی فقیہ نے حکومت اسلامی قائم کر کے ثابت کر دیا ہے کہ اسلام میں سیاست کا محور دین ہے۔ آئی ایس او کا طرہء امتیاز خط ولایت پر قائم رہنا اور اس کا فروغ ہے۔ الٰہی کلچر کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تنظیم کے تمام کاموں کا محور و مرکز خوشنودی خداوندی ہی ہونا چاہیے۔ ورنہ تنظیم پرستی ہو گا اور یہ وہ طرز فکر نہیں جس کے لئے آئی ایس او تشکیل دی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ تنظیم پرستی کی لعنت سے بچنے کے لئے امام خمینیرہ ، شہید مطہری، شہید عارف الحسینی اور دیگر الٰہی شخصیات کے طرز زندگی اور فرامین کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ البتہ انہوں نے وضاحت کی کہ تنظیم پرستی کا تعلق کسی تنظیمی کاز کے دفاع سے نہیں، لیکن اس میں خوشنودی خداوندی ترجیح ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس او 22 مئی 1972ء کو اپنے قیام سے لے کر1977ء تک صرف لاہور کے تعلیمی اداروں تک محدود رہی تاکہ تنظیمی اساس کو مضبوط کر سکے۔ پھر تنظیمی ڈھانچے کو پاکستان کے دوسرے شہروں تک وسعت دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس او کی چار دہائیوں کی کارکردگی کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس وقت شیعہ قومیات میں جو کوئی جس پلیٹ فارم پر بھی متحرک ہے اس کی بالواستہ یا بلا واسطہ تربیت آئی ایس او ہی نے کی ہے۔
کنونشن کے شرکاء کو بتایا گیا کہ تنظیم کی ترقی کے لئے آئی ایس او کی تعلیمی اداروں میں تنظیم سازی پر توجہ دی جائے۔ انہوں نے المہدی ادارہ تربیت اسلامی کی تشکیل کو سراہتے ہوئے اس کی فعالیت اور نئے اراکین کی فکری تربیت اور اسے اسکاﺅٹنگ سے مربوط کرنے پر زور دیا۔
اس نشست میں کنونشن کے شرکاء نے کراچی سے علی دیپ رضوی کے نوحوں پر ماتمداری بھی کی۔
کنونشن کے دوسرے دن کے پروگرامز کے مطابق تنظیمی کار کردگی، احتساب اور علمائے کرام کے دروس جاری رہیں گے۔ تیسری نشست میں دفاع وطن کانفرنس اور چوتھی نشست میں شب شہداء اہم پروگرامز ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 101075
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش