0
Saturday 1 Oct 2022 14:30

ایران ایسا ملک نہیں جہاں حکومت کا تختہ الٹا یا نرم انقلاب لایا جا سکے، حسین امیر عبداللہیان

ایران ایسا ملک نہیں جہاں حکومت کا تختہ الٹا یا نرم انقلاب لایا جا سکے، حسین امیر عبداللہیان
اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس میں شریک ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے ایک امریکی ریڈیو کو انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے تاکید کی ہے کہ ایران ایسا ملک نہیں جہاں حکومت کا تختہ الٹا یا نرم انقلاب لایا جا سکتا ہو۔ امریکی ریڈیو این پی آر کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران میں مظاہرے کرنے والے افراد جائز پریشانیاں رکھتے ہیں؟ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ مہسا امینی کے ساتھ پیش آنے والے حادثے پر ہم سبھی کو افسوس ہے جبکہ ایسا حادثہ دنیا میں کسی بھی مقام پر وقوع پذیر ہو سکتا ہے جیسا اس سے بدتر دسیوں اتفاقات امریکہ و برطانیہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں ہر سال وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ اس اتفاق کے رونما ہوتے ہی صدر مملکت کی جانب سے اس پر قريب سے نگرانی شروع کر دی گئی، انہوں نے مہسا امینی کے اہلخانہ کے ساتھ گفتگو کی اور عدلیہ بھی اس مسئلے کی سنجیدگی کے ساتھ پیروی کر رہی ہے درحالیکہ ایرانی عوام کے پاک جذبات کے تحت اس حادثے کے فورا بعد ہی پرامن احتجاج بھی سامنے آیا جس کے بعد سبھی عدلیہ کے جواب کے منتظر رہے تاہم متعدد بیرونی فریق عوام کے پاک جذبات سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے سیٹلائٹ چینلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے ملک میں اشتعال انگریزی پھیلا رہے ہیں جس کے باعث پرتشدد ہنگامے وقوع پذیر ہوئے ہیں جبکہ تعجب اس بات پر ہے کہ امریکی حکام کی جانب سے اس مسئلے میں مداخلت کیوں کی جا رہی ہے!

امریکی ریڈیو کے اس سوال پر کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جوان خاتون پولیس کی مختصر تحویل میں فوت ہو جائے؟ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ اب تک انجام پانے والی تحقیقات کے مطابق پہلی بات یہ کہ ایسی دستاویزات موجود ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ مہسا امینی قبل ازیں دماغی مسائل سے دوچار تھیں اور انہوں نے آپریشن بھی کروایا تھا اور دوسرے یہ کہ ایسے متعدد گواہ عدالت میں پیش ہو چکے ہیں کہ جنہوں نے شہادت دی ہے کہ مہسا امینی کو پولیس کی جانب سے کسی قسم کے تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا البتہ ہنوز ہم فیصلہ نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں تحقیقات کی تکمیل اور عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہیئے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اب میرا سوال یہ ہے کہ یہ ایک حادثہ تھا جو وقوع پذیر ہو گیا لیکن لندن سے چلنے والے سیٹلائٹ چینل یا امریکہ کے اندر موجود بعض امریکی حکام کو اشتعال انگیز بیانات دینے اور ان مسائل میں مداخلت کا حق کس نے دیا ہے جبکہ لندن سے چلنے والے بعض چینلز ہنوز سرعام طور پر لوگوں کو بغاوت، جلاؤ گھیراؤ اور قتل و غارت پر اُکسا رہے ہیں درحالیکہ سب سے پہلے عدالت کو اظہار نظر کا موقع دیا جانا چاہیئے!

امریکی میزبان کے اس سوال کے جواب میں کہ ماضی کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے یقین نہیں کہ ان تمام مظاہروں کی وجہ بیرونی اشتعال انگریزی ہو گی جبکہ میں نے بہت سے افراد سے سن رکھا ہے کہ عوام موجودہ حکومت اور اس کے قوانین سے تھک چکے ہیں تو کیا آپ کا خیال نہیں کہ یہ مظاہرے ایرانی عوام یا ان کے ایک حصے کی جانب سے منعقد کئے جا رہے ہیں؟ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ اس مسئلے سے متعلق ایران میں ایسے مظاہرین بھی موجود ہیں کہ جو اپنے مطالبات کو پرامن طریقے سے بیان کرتے ہیں تاہم اس وقت متعدد منظم گروہ ملک میں بدامنی پھیلانے کے لئے سرگرم اور امن عامہ کو درہم برہم کرنے کے درپے ہیں جبکہ امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک نہ صرف 17 ہزار ایرانیوں کی ٹارگٹ کلنگ کرنے والے دہشتگرد گروہ "منافقین" (مجاہدین خلق) کو مسلسل شہہ دے رہے ہیں ہے بلکہ ایران میں اپنے کارندے بھی بھیج رہے ہیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران ایسا ملک نہیں جہاں حکومت کا تختہ الٹا یا نرم انقلاب لایا جا سکتا ہو، ایرانی عوام معاملہ فہم ہیں جبکہ احتجاج، ہنگاموں اور بغاوت میں بہت فرق ہے اور ہم عوامی مطالبات پر پوری توجہ دیتے ہیں تاہم بیرونی عوامل کے زیر اثر ملک میں بلوے کرنے والوں کیساتھ قوانین کیمطابق سلوک کیا جاتا ہے۔

این پی آر ریڈیو کے اس سوال پر کہ لگتا ہے کہ خواتین کے حجاب کے بارے موجود قوانین میں تبدیلی کی درخواست موجود ہے تو کیا خواتین کو لباس کی خاطر گرفتار کرنا درست ہے؟ ایرانی وزیر خارجہ نے تاکید کی کہ تمام ممالک کسی نہ کسی دائرہ کار، قوانین، قواعد و اقدار کے حامل ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں جمہوریت مکمل طور پر رائج ہے اور یہی موجودہ صورتحال جمہوریت کی موجودگی کو ظاہر کرتی ہے لہذا آئیے اور عدلیہ کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا انتظار کریں!

امریکی ریڈیو کے اس سوال کے جواب میں کہ آپ نے پرامن احتجاج کا ذکر کیا جبکہ حاصل ہونے والے ویڈیو کلپ پرتشدد مظاہروں کو ظاہر کر رہے تھے اور پولیس بھی تشدد کے ساتھ ہی جواب دے رہی تھی درحالیکہ اقوام متحدہ نے ایرانی حکام پر حد سے زیادہ طاقت کے استعمال اور مظاہروں کو دبانے کا الزام عائد کیا ہے! حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ ملکی قوانین کی رو سے پرامن طریقے سے ملک کے کسی بھی حصے میں آزادانہ طور پر احتجاج کیا جا سکتا ہے تاہم پولیس؛ ایمبولینسوں کو نذر آتش کرنے اور بینک لوٹنے والے ہر فرد کے خلاف طاقت کے ساتھ ہی پیش آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے ملک میں جب عوام نے باہر نکل کر کانگریس کی عمارت پر قبضہ کر لیا تھا تب آپ نے کیا کیا تھا؟ آپ کے سکیورٹی اداروں نے حتی اپنے ملکی صدر (ڈونلڈ ٹرمپ) کا ٹوئٹر اکاؤنٹ تک بند کر دیا تھا، کیا تب جمہوریت تھی یا قومی سلامتی کی حفاظت؟ ایرانی وزیر خارجہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ تب آپ کی جانب سے یہی تشخیص دی گئی تھی کہ قومی سلامتی کی خاطر ملک کی اولین شخصیت (صدر مملکت) کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کو بھی بند کر دیا جائے کیونکہ آپ کی جمہوریت کی علامت (کانگریس) عوامی قبضے میں جا چکی تھی!

امریکی ریڈیو کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ گذشتہ چند ايام سے ایران میں انٹرنیٹ سروس کو کیوں محدود کر دیا گیا ہے؟ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پورے ملک کے امن عامہ و آرام و سکون کی حفاظت کے حوالے سے ہمارے کاندھوں پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جبکہ پولیس؛ قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہر وہ کام انجام دیتی ہے جو ملکی امن و امان کی برقراری میں ممد و معاون ہو، ملکی نظام کو درہم برہم کرنے والے کے ساتھ قواعد و ضوابط کے مطابق برتاؤ کیا جاتا ہے تاہم آزادی بیان و اجتماعات کے حوالے سے ایرانی عوام کو مکمل اختیار حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک حادثہ وقوع پذیر ہوا ہے جیسا کہ امریکہ میں ایک سیاہ فام شخص کے ساتھ پیش آیا تھا جبکہ اُس سیاہ فام شخص کو امریکی پولیس کے ہاتھوں عمدی طور پر وحشتناک طریقے سے قتل کیا گیا تھا تاہم بنیادی تحقیقات کے مطابق یہاں کوئی عمدی کارروائی نہ تھی البتہ ہم مزید گہری اور بہتر تحقیقات کے نتیجے کے منتظر ہیں کیونکہ بعض مغربی ممالک اپنے تئیں ایرانی نظام حکومت کو بدلنے کے لئے اظہار نظر کر رہے ہیں! انہوں تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ان تمام اقدامات کا آپس میں تعلق ہی کیا ہے؟ لندن سے چلنے والا فارسی زبان کا ایک سیٹلائٹ چینل ایرانی عوام کو موجودہ نظام حکومت کی سرنگونی کی دعوت دیتا ہے تو مغرب سے چلنے والی متعدد ویب سائٹیں ایرانی عوام کو اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد کی اپنے ہاتھوں سے تیاری کی ترغیب دیتی نظر آتی ہیں!

اپنے امریکی میزبان کے اس سوال کے جواب میں کہ میرا خیال ہے کہ سڑکوں پر آنے والے لوگ حکومتی نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں، امیر عبداللہیان نے تاکید کی کہ سڑکوں پر آنے والے وہ لوگ ہیں جو عظیم و دسیوں لاکھ افراد پر مشتمل متعدد دستوں میں پورے ایران میں باہر نکلے ہیں، 2 کروڑ 80 لاکھ سے زائد تعداد میں ایرانی عوام جو ان ہنگاموں اور بغاوت کے خلاف امت رسول اللہ (ص) کے عنوان سے سڑکوں پر آئے تاہم مغربی میڈیا ان 2 کروڑ 80 لاکھ افراد کو دیکھ ہی پایا اور نہ ہی اس نے ان کی کوئی ایک تصویر بھی شائع کی لیکن یہی مغربی میڈیا ان 10، 50 یا 100 افراد کو مکمل کوریج دیتا رہا جو کسی بھی چوک میں حکومتی بینک یا کوڑے کی ٹوکریاں جلانے میں مصروف تھے! انہوں نے کہا کہ یہ روئیداد قبل ازیں بھی ہمارے ملک سمیت متعدد ممالک میں دہرائی جا چکی ہے جس کے دوران بیرونی فریقوں نے بے جا مداخلت اور موجود بحرانی صورتحال سے غلط فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ میری رائے ہے کہ انتظار کریں تاکہ تحقیقات کا نتیجہ واضح ہو جائے، ایران میں سب کچھ معمول کے مطابق ہے اور جتنا آپ اس کے بارے سوچ اور تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، اس قدر پریشانی موجود نہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے میزبان کے اس سوال پر کہ امریکی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے آزاد انٹرنیٹ کے لئے ایران کو ضروری لائسنس جاری کر دیا ہے تو کیا آپ مستقبل میں انٹرنیٹ پر قابو پا سکتے ہیں؟ تاکید کی کہ ہم نے سوشل میڈیا کو نہ صرف آزادانہ طور پر عوام کے اختیار میں دیا بلکہ اس سہولت کی حفاظت بھی کی ہے تاہم اگر امریکہ ایرانی عوام کی خاطر پریشان ہے تو وہ ہزاروں بچے جو پابندیوں کے باعث ہونے والی دواؤں کی قلت سے فوت ہو رہے ہیں، اُسے نظر کیوں نہیں آتے؟ امریکہ نے ای بی مرض (EB: Epidermolysis Bullosa) میں مبتلاء بچوں کی دواؤں کے حوالے سے کسی قسم کا تعاون کرنے سے انکار کر دیا، کرونا کے زمانے میں امریکہ نے نہ صرف خود ایران کو کوئی ایک ویکسین بھی ارسال نہ کی بلکہ جہاں سے ایران کو کرونا ویکسین ارسال کی جاتی تھی وہاں بھی امریکہ کی جانب سے دباؤ ڈالا جاتا رہا کہ ایران پر پابندیاں عائد ہیں لہذا اسے کرونا ویکسین ارسال نہ کی جائے! انہوں نے کہا کہ ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق ایران میں ہونے والے حالیہ ہنگامے ملک میں بیرونی مداخلت کے باعث وقوع پذیر ہوئے ہیں لہذا انٹرنیٹ کو کنٹرول کیا جانا چاہیئے اور ہم ضرور بالضرور یہ کام انجام دیں گے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر امریکہ و مغربی ممالک ایران میں انٹرنیٹ کی کیفیت پر پریشان ہیں تو انہیں چاہیئے کہ وہ ایران پر عائد ظالمانہ پابندیوں اور ایرانی مریضوں کی حالت زار پر پریشان ہوں درحالیکہ امریکہ نے دواؤں پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے اور کسی طور دواؤں تک دسترس ہونے نہیں دے رہا۔ حسین امیر عبداللہیان نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکام کے لئے میری نصیحت ہے کہ اس وقت ہم ایرانی جوہری معاہدے (JCPOA) کی بحالی کے لئے پیغامات کا تبادلہ کر رہے ہیں جبکہ ایران میں کوئی غیر معمولی حادثہ پیش نہیں آیا لہذا وہ اپنے ذہنوں میں بٹھا لیں کہ ایران میں "حکومتی نظام کی کوئی تبدیلی" وقوع پذیر نہیں ہو گی اور وہ اس حوالے سے ایرانی عوام کے جذبات کے ساتھ کھیل بھی نہیں سکتے!

انہوں نے کہا کہ اوباما بھی اپنے دور میں اسی غلطی کا شکار ہوا تھا جب اس نے ہمارے ملک کی ایک اعلی حکومتی شخصیت کو خط ارسال کیا جس میں باہمی دوستی اور ایران و امریکہ کے درمیان موجود تمام مشکلات کے خاتمے کے بارے بات کی گئی تھی اور پھر جب ایران میں سیاسی و سماجی تبدیلیاں رونما ہوئیں، البتہ ایران کی سڑکوں پر موجود صورتحال سے کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر احتجاج شروع ہوئے تو جناب اوباما بھول ہی گئے کہ انہوں نے ایران کو کوئی خط بھی ارسال کیا ہے اور پھر اوباما کی جانب سے ایک نیا مطالبہ داغ دیا گیا جس کے فورا بعد بارک اوباما نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایران کی سڑکوں پر موجود دلیر خواتین کی حمایت کرتے ہیں جس کے ساتھ ساتھ سیٹلائٹ و سوشل میڈیا چینلوں بھی ایرانی عوام کو سڑکوں پر آنے، بینکوں کو نذر آتش کرنے اور پورا نظام درہم برہم کر دینے کی ترغیت دینا شروع کر دی تھی! امیر عبداللہیان نے کہا کہ امریکی حکام کو ذرا صبر اور جلد بازی سے پرہیز کرنا چاہیئے خاص طور پر اس وجہ سے کہ ہمارے درمیان مذاکراتی سلسلہ ہنوز جاری ہے اور ہم جوہری معاہدے کی بحالی کے لئے پیغامات کا تبادلہ کر رہے ہیں! انہوں نے کہا کہ ایسا طرز عمل امریکیوں کے حوالے سے ہمارے اعتماد کو مزید کم کر دے گا درحالیکہ اس وقت بھی ہمیں ان پر کوئی اعتماد نہیں مزید برآں یہ کہ ان کی جانب سے ایسا رویہ بھی اختیار کر لیا جائے!

امریکی میزبان کے اس سوال کے جواب میں کہ جوہری مذاکرات کے دوران چند ہفتے قبل نہ صرف دونوں بلکہ تمام فریق ہی اتفاق نظر کے انتہائی قریب پہنچ چکے تھے، تو پھر ایسا کیا ہوا کہ جس سے اتفاق نظر کا احتمال کہیں کم رہ گیا؟ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ویانا میں مذاکرات کلی طور پر مثبت نہج پر آگے بڑھے ہیں اور مارچ سے لے کر اب تک ہم نے امریکی فریق کے ساتھ بہت سے پیغامات کا تبادلہ کیا ہے، اب تک ہم نے ایک لمبا رستہ طے کیا ہے جبکہ باقی ماندہ مسائل کم لیکن انتہائی اہم ہیں جن کے بارے گفتگو جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ باقی ماندہ مسائل کے بارے امریکیوں کی جانب سے ایک ایسا متن پیش کیا گیا ہے جس میں بہت زیادہ ابہامات موجود ہیں جبکہ ہم نے یورپی رابطہ کار پر واضح کر دیا ہے کہ مذکورہ متن کو شفاف، روشن و قوی ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکہ سمیت تمام فریقوں پر اپنی پیشکیں واضح کر دی ہیں اور مذکورہ متن کو مزید شفاف بنا کر پیش کیا ہے تاکہ اس کی تفسیر ممکن ہو سکے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم معاہدے کے لئے سنجیدہ ہیں تاہم ہمیں نہیں معلوم کہ کیا امریکیوں کے اندر بھی حقیقت پسندی اور ضروری شجاعت موجود ہے یا نہیں؟ البتہ بعض اوقات وہ خود ہی امریکہ و کانگریس میں موجود مشکلات پر گفتگو بھی کرتے ہیں لیکن یہ امریکیوں کی اپنی مشکل ہے جبکہ میں بھی ہر ہفتے قومی اسمبلی میں جا کر جوہری معاہدے کے مخالفین کو جواب دیتا ہوں لہذا اگر جوہری معاہدے کے حوالے سے امریکہ کی کوئی اندرونی مشکل ہے تو اس حوالے سے ہمارے لئے بھی اندرونی مشکلات موجود ہیں لیکن ہم دلیری کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئے اور منطقی گفتگو کر رہے ہیں!

امریکی ریڈیو کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایران کے نقطۂ نظر کے مطابق امریکہ کی جانب سے اس بات کی ضمانت کا دیا جانا انتہائی ضروری ہے کہ وہ دوبارہ جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار نہیں ہو گا؟ امیر عبداللہیان نے کہا کہ ضمانت کا مسئلہ ہمارے لئے انتہائی اہم ہے کیونکہ اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر اس لئے ہے کہ موجود صورتحال خود "ٹرمپ کے امریکہ" ہی کی بنائی ہوئی ہے جبکہ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جناب بائیڈن (شروع میں تو) زیادہ سے زیادہ دباؤ کی ٹرمپ کی پالیسی کے خلاف تھے لیکن اب بائیڈن نے خود ہی ٹرمپ کی طرح، مذاکرات کے دوران ہی گذشتہ مدت میں اوسطا ہر ماہ ایران کے خلاف 1 یا 2 نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس گفتگو کے بعد میرا خیال ہے کہ ہم ضمانت کے بارے مشترکہ مفہوم کے ذرا قریب پہنچ گئے ہیں، کہا کہ امریکی فریق نے ضمانت کے حوالے سے کچھ قدم اٹھائے ہیں تاہم اگر یہ قدم کامل ہو جائیں ہم اتفاق نظر تک پہنچ سکتے ہیں۔

امریکی میزبان کے اس سوال کے جواب میں کہ میں اس انٹرویو کو ایرانی-امریکی قیدیوں کے بارے سوال کے بغیر مکمل نہیں کر سکتا جبکہ ان میں سے ایک باقر نمازی ہے کہ جو بوڑھا اور مریض ہے تو کیا بہتر نہ ہو گا کہ انسانی بنیادوں پر اس شخص کو آزاد کر دیا جائے؟ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہم قیدیوں کے موضوع کو جوہری معاہدے سے جدا سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ مکمل طور پر انسانی بنیادوں پر استوار ہے اور ہم اس بات کے لئے تیار ہیں کہ جب بھی امریکی فریق تیار ہو، ہم قیدیوں کے تبادلے کے لئے اقدام کریں گے۔ اپنی گفتگو کے آخر میں انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ماضی میں ہمارے درمیان کچھ پیغامات کا تبادلہ ہوا تھا جبکہ اب، امریکہ جب بھی اس کام کے لئے تیار ہو تو ہم جوہری معاہدے سے ہٹ کر قیدیوں کے تبادلے کے لئے اقدامات اٹھائیں گے!
خبر کا کوڈ : 1017109
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش