0
Wednesday 23 Nov 2022 22:28

کرم میں سرحد پار سے ہونیوالی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہیں، علامہ جہانزیب جعفری

کرم میں سرحد پار سے ہونیوالی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہیں، علامہ جہانزیب جعفری
اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے صدر علامہ جہانزیب علی جعفری و دیگر نے ضلع کرم میں پاک افغان بارڈر پر ہونے والے سرحد پار کی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے گہرے دکھ و تشویش کا اظہار کیا ہے اور پاک فوج کے ایک جوان کی شہادت پر غمزدہ لواحقین سے دلی ہمدردی اور تعزیت کی۔ پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2670 کلومیٹر طویل ڈیورنڈ لائن میں سب سے واضح نشاندہی کرم کے ساتھ سرحد پر ہے، 1846ء میں جب یہاں افغان امیر دوست محمد خان نے کرم کو ایک الگ ولایت یا صوبے کی حیثیت دی اور اپنے ایک چہیتے بیٹے کو یہاں کا والی بنایا تو اس ولایت کا حدود اربعہ متعین تھا۔ اس خطے میں سرکاری بارڈر سے ہٹ کر بھی قوموں کی اپنی حدود جانی پہچانی ہیں۔ اس علاقے میں طوری قوم کی حد ملکیت کوئی ہزار سال سے متعین ہے۔ انگریزوں نے دوسرے اینگلو افغان جنگ 1878ء میں کرم کو اپنے تاریخی حدود اربعہ کے ساتھ معاہدہ گندمک کے تحت افغانستان سے آزاد کرایا تو اس وقت افغان امیر شیر علی خان اور اسکے بعد سردار یعقوب خان اور بعد کے امیر عبدالرحمان سے معاہدے کروائے کہ کرم کی حدود کا احترام کرینگے اور کسی قسم کی مداخلت نہیں کرینگے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی طور پر تسلیم سرحد ڈیورنڈ لائن کا آغاز 1893ء میں ہوا تو کرم کی حدود خاص کر خرلاچی اور میدان کے علاقے میں بڑی واضح نشاندہی ہوگئی۔ خرلاچی کے قریب سوختہ چھاؤنی اور میدان میں لکہ تیگہ تاریخی لینڈ مارک بنے۔ اس دوران یہ بات سامنے آئی کہ خرلاچی کی زمینوں کو سیراب کرنے والے ندی کا بند افغان حدود میں آیا تو اس مشکل کو حل کرنے کے لیے وایسراے ہند اور امیر عبدالرحمان کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوا، جسکا ریکارڈ سرکاری اسناد میں موجود ہے۔ اسکے تحت افغان امیر نے ضمانت کروا دی کہ ندی کے بند میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائیں گی، ایک بار پھر 1919ء تیسرے اینگلو افغان جنگ کے بعد امیر امان اللہ خان سے اس بارڈر کو تسلیم کیا گیا۔

علامہ جہانزیب علی جعفری نے کہا کہ حالیہ متنازعہ اور بے مفہوم بارڈر فنسنگ کے دوران یہ پاکستانی فوجی حکام کی نالائقی تھی کہ ڈیورنڈ لائن کی واضح نشاندہی کو نظر انداز کرکے باڑ لگوائی اور اس سلسلے میں مقامی قبائل کے احتجاج کو بھی نظر انداز کیا۔ مقامی قبائل نے اب مجبور ہوکر افغانستان پر مسلط کیے گیے خونخوار طالبان کے تجاوز کے خلاف اقدام کیا جو درحقیقت پاکستانی فوج کا فرض تھا۔ ہم ملکی سلامتی اور سرحدوں کی نگران فوج اور انتظامی حکام سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ اگر وہ واقعی سرحدوں کے رکھوالے ہیں تو گیارہ سو جریب تسلیم شدہ اور کاغذات مال میں متعین شدہ سرزمین پاکستان پر سودے بازی نہ کریں اور اس کو آزاد کرانے میں مقامی قبائل کی حمایت اور مدد کریں، ورنہ انکا یہ دعویٰ کہ ہم ایک ایک انچ سرزمین کے رکھوالے ہیں، بے معنی رہ جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 1026451
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش