QR CodeQR Code

ایران میں پولیس اہلکاروں کی شہادتیں، مغرب کا دہرا معیار

5 Dec 2022 11:59

اسلام ٹائمز: گذشتہ کچھ سالوں سے امریکہ، کینیڈا، فرانس، برطانیہ، ہالینڈ، سویڈن، آسٹریلیا، جرمنی میں بے روزگاری، ماحولیاتی آلودگی اور مہنگائی کیخلاف مظاہرین کو جس سختی سے روکا گیا ہے، اسکی تصاویر اور ویڈیوز اسکی شاہد ہیں۔ بظاہر یورپ اور امریکہ میں احتجاج کو روکنا قانونی طور پر ممنوع ہے، لیکن حکومتوں نے مشتعل مظاہرین کو ہمیشہ سختی سے روکا ہے۔ لیکن ایران میں جاری مظاہروں اور مظاہرین کے ہاتھوں جانی و مالی نقصانات کے باوجود امریکی و یورپی حکمرانوں نے نہ صرف انکی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے بلکہ ہر ممکن دباو ڈالنے کی بھی کوشش کی ہے کہ ان متشدد مظاہرین کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی جائے۔


ترتیب و تنظیم: علی واحدی

مغربی شیطانی طاقتوں کا دوہرا معیار اور منافقت پر مبنی طرزعمل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لیکن اسلامی ممالک بالخصوص آزاد سیاسی حیثیت کے حامل ملکوں کے خلاف ہر طرح کی سازشیں عمل میں لائی جاتی ہیں۔ چار دہائیوں سے زیادہ کے عرصے تک پے در پے ذلت آمیز شکستیں کھانے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے عوام کو بھڑکانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ حال ہی انگشت شمار اقلیت کے ذریعے مختلف جگہوں پر ہونیوالے مظاہروں اور مختلف سڑکوں، چوراہوں پر ڈیوٹی دینے والے مقامی انتظامیہ کے اہلکاروں، پولیس اور رضاکاروں کو جس بیدردی کیساتھ شہید کروایا گیا، یہ مغربی شیطانی طاقتوں کے مکروہ چہرے کا ایک رخ ہے۔ حالانکہ یورپ اور امریکہ میں مظاہرین اگر تشدد پر اتر آئیں تو انہیں سختی سے دبایا جاتا ہے۔

اگر مظاہرین جلاو گھیراو کریں یا مسلح ہو کر آئیں تو انہیں بالکل معاف نہیں کیا جاتا، بغیر کسی استثنا کے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گذشتہ کچھ سالوں سے امریکہ، کینیڈا، فرانس، برطانیہ، ہالینڈ، سویڈن، آسٹریلیا، جرمنی میں بے روزگاری، ماحولیاتی آلودگی اور مہنگائی کیخلاف مظاہرین کو جس سختی سے روکا گیا ہے، اس کی تصاویر اور ویڈیوز اس کی شاہد ہیں۔ بظاہر یورپ اور امریکہ میں احتجاج کو روکنا قانونی طور پر ممنوع ہے، لیکن حکومتوں نے مشتعل مظاہرین کو ہمیشہ سختی سے روکا ہے۔ لیکن ایران میں جاری مظاہروں اور مظاہرین کے ہاتھوں جانی و مالی نقصانات کے باوجود امریکی و یورپی حکمرانوں نے نہ صرف ان کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے بلکہ ہر ممکن دباو ڈالنے کی بھی کوشش کی ہے کہ ان متشدد مظاہرین کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی جائے۔ حتیٰ کہ ایرانی پولیس پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ امریکہ میں تو مظاہرین کو نہ صرف نہایت سختی سے دبایا جاتا ہے، بلکہ پولیس کو ان سے نمٹنے کے لیے خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں، نہ صرف عدالتوں میں احتجاج کرنیوالوں کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی بلکہ ان کا سوشل بائیکاٹ بھی کیا جاتا ہے۔

جنوری 2021ء میں ہونیوالے مظاہرے اس کی ایک مثال ہیں، جب اوپر سے نیچے تک سب کو جیلوں میں ڈالا گیا، جرمانے کیے گئے، خود سابق صدر ٹرمپ کو عدالتوں میں طلب کیا گیا۔ مغربی ممالک میں پولیس یا سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ سنگین جرم شمار ہوتا ہے، سخت سزائیں دی جاتی ہیں، ہر سال درجنوں لوگوں کو پولیس اس شک کی بنیاد پر ہلاک کر دیتی ہے کہ وہ پولیس پر حملہ کرنیکا ارادہ رکھتے تھے اور ان قاتل پولیس اہلکاروں کو عدالتیں چھوڑ دیتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف لندن سے چلنے والے ٹی وی چینلز کو دیکھیں تو ایرانی مظاہرین کو پیٹرول بم بنانے کی ٹریننگ دے رہے ہیں اور سعودی فنڈز سے چلنے والا ایران انٹرنیشنل ٹی وی یہ پروگرام چلا رہا ہے کہ ایرانی پولیس اور بسیج رضاکاروں کو قتل کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ قابل تحسین ہے۔ ان ٹی وی چینلز کے ذریعے نہ صرف پولیس کشی کی تربیت دی جا رہی ہے بلکہ بار بار اس پیغام کو دہرایا جا رہا ہے کہ پولیس کو قتل نہ صرف جائز ہے بلکہ جو پولیس کو قتل نہیں کرتا، وہ قابل مذمت ہے۔ لیکن یورپ اور امریکہ میں سڑکیں بلاک کرنا ایک سنگین جرم ہے۔ چند دن قبل جرمنی میں سڑکوں پر دھرنا دینے والے مظاہرین کے بارے میں ڈی ڈبلیو انگلش ٹی وی نے جرمن وزیر کا بیان جاری کیا کہ یہ ناقابل برداشت ہے اور جرمن پولیس ان مظاہرین کیساتھ جتنا سلوک روا رکھے، میری نہ صرف اجازت ہے بلکہ پولیس کو میری مکمل حمایت حاصل ہے۔
 
اسی طرح کینیڈا اور برطانیہ کی پولیس کو مظاہرین کو کچلنے کا مکمل اختیار دیا گیا ہے، لیکن یہی ممالک امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا ایران میں ہونیوالے حالیہ متشدد مظاہروں کی مکمل حمایت اور سرپرستی کر رہے ہیں اور ایران کیخلاف دباو بڑھانے کیلئے کہہ رہے ہیں کہ مظاہرین کو نہ روکا جائے، جب ان ممالک نے پولیس کو مکمل اختیار دے رکھا ہے کہ مشتعل مظاہرین کو ہرگز احتجاج نہ کرنے دیا جائے۔ دو روز قبل برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے پولیس سربراہ کو بلا کر کہا کہ احتجاج کرنیوالے کو ہر قیمت پر روکا جائے، کیونکہ ان مظاہروں کیوجہ سے عام آدمی کی زندگی میں خلل پڑتا ہے۔ برطانوی وزیراعظم نے کہا کہ میں اعلان کرتا ہوں کہ پولیس کو ان مظاہرین کو روکنے کے لیے جو اختیارات چاہیں، میں دیتا ہوں لیکن کاروبار زندگی میں کوئی رکاوٹ اور خلل نہیں پڑنا چاہیئے، میں پولیس کو ایک دفعہ پھر اختیار دیتا ہوں کہ وہ اس کو استعمال کریں، نرمی سے کام نہ لیں۔

یہی حال کینیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو جسٹن کا ہے۔ جو کئی بار ایران مخالف مظاہروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ لیکن جب جنوری اور فروری میں کینیڈا میں ڈرائیوروں نے مظاہرے کیے اور سڑکیں بلاک کر دیں تو انہوں نے پولیس کو مکمل اختیارات دیئے اور ڈرائیوروں کے مطالبات کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کیخلاف سخت قانونی کارروائی کی۔ ان چند مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مغربی ممالک چاہے یورپ ہو، امریکہ ہو، یا دیگر ممالک، ان کے ہاں اپنی پولیس اور مظاہرین کے لیے الگ معیار ہے اور ایران سمیت مسلمان ممالک کے لیے دوسرا معیار ہے۔ جیسا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پر تمام مسلم ممالک میں امریکہ نے بیس سال سے زیادہ کے عرصے سے دہشت گردی جاری رکھی ہوئی ہے اور ہر قسم کی مداخلت کو جائز قرار دیا ہوا ہے۔ اسی طرح نہ صرف ایران میں جاری مظاہروں کو مالی اور سیاسی حمایت کی جا رہی ہے کہ پولیس، عوام اور رضا کاروں کیخلاف حملوں کی ترغیب دی جا رہی ہے بلکہ اسے ان قاتلوں کا قانون حق قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ جہاں چاہیں، جب چاہیں، کسی کو بھی پیٹرول بم یا چاقو کے وار کرکے قتل کر دیں۔


خبر کا کوڈ: 1028578

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/1028578/ایران-میں-پولیس-اہلکاروں-کی-شہادتیں-مغرب-کا-دہرا-معیار

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org