0
Wednesday 5 Oct 2011 15:05

کالعدم تنظیموں کے پروپیگنڈا بیانات کی اشاعت پر پابندی، خوف میں اخبار کی اشاعت سے بہتر ہے کہ اخبار شائع ہی نہ کریں، قاضی فائز عیسٰی

کالعدم تنظیموں کے پروپیگنڈا بیانات کی اشاعت پر پابندی، خوف میں اخبار کی اشاعت سے بہتر ہے کہ اخبار شائع ہی نہ کریں، قاضی فائز عیسٰی
 کوئٹہ:اسلام ٹائمز۔ بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس محمد نور مسکانزئی پر مشتمل بنچ نے مستونگ میں زائرین کی بس پر فائرنگ کے نتیجے میں 26 افراد کے جاں بحق ہونے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، عدالت نے زائرین کی بس پر فائرنگ کیس کی تفتیش میں پیشرفت نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وقوعہ سے متعلق نقشے دوبارہ پیش کر کے یہ بھی بتایا جائے کہ کوئٹہ تفتان شاہراہ پر ایف سی کی کتنی چیک پوسٹیں ہیں اور یہ کہاں کہاں قائم ہیں۔
 عدالت نے اس سلسلے میں آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت ایک عبوری حکم جاری کیا کہ آئندہ اخبارات کالعدم تنظیموں کے پروپیگنڈے پر مبنی بیانات شائع نہ کریں۔ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے کہا کہ جرات کا مظاہرہ نہ کر سکنے والے اخبار شائع نہ کریں۔ بلوچستان حکومت نے پانچ گواہوں کے بیانات عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ واقعہ کی تحقیقات لیویز سے لیکر سی آئی ڈی کے حوالے کی گئی ہے، جو اس کیس کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی نے جن پانچ گواہوں کے بیانات عدالت میں پیش کئے ان میں واقعہ کے تین زخمیوں کے علاوہ بس ڈرائیور اور مالک شامل ہیں، اس کے علاوہ ایچ ڈی پی کی جانب سے بھی عدالت میں واقعہ کا ایک عینی شاہد پیش کیا گیا، عدالت نے اس سے مختلف سوالات پوچھنے کے بعد حکم دیا کہ مذکورہ گواہ کا بیان اس کے گھر پر ریکارڈ کیا جائے اور پولیس اس کو سامنے طلب نہ کرے۔ 
عدالت نے اس بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ اخبارات میں کالعدم تنظیموں کے بیانات کے پروپیگنڈے اور نظریات کی تشہیر کی جاتی ہے، جو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت جرم ہے عدالت نے اس سلسلے میں آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت ایک عبوری حکم جاری کیا کہ آئندہ اخبارات کالعدم تنظیموں کے پروپیگنڈے پر مبنی بیانات شائع نہ کریں۔ اخبارات کو بھی جرأت کا مظاہرہ کر کے ان کالعدم تنظیموں کا معاون نہیں بننا چاہئے اور جو اخبارات اتنی جرأت نہیں کر سکتے تو پھر خوف میں اخبار کی اشاعت سے بہتر ہے کہ اخبار شائع ہی نہ کریں۔ 
قانون کی پاسداری ہر شہری کا فرض ہے عدالت نے صوبائی محکمہ تعلقات عامہ پی آئی ڈی کے ذریعے تمام اخباری مالکان نشریاتی اداروں اور الیکٹرانک میڈیا سی پی این ای اور اے پی این ایس کو اس آرڈر کی کاپیاں بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس حکم امتناع پر اخبارات میڈیا اپنا موٴقف پیش کرنا چاہئے تو عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں اس پر وہاں موجود صحافیوں نے عدالت کو بتایا کہ صحافیوں کو فون پر دھمکیاں دی جاتی ہیں، اس لئے ہم خوف کے باعث چھاپتے ہیں۔ تاہم عدالت نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔ 
عدالت نے واقعہ کے تفتیشی افسران کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت سے قبل عدالت کو تفتیش میں پیشرفت سے آگاہ کریں اور اس سلسلے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں، تفتیشی ٹیم کو جس سطح پر مذکورہ واقعہ کی تفتیش کیلئے معاونت درکار ہو تمام حکومتی ادارے اس سے تعاون کے پابند ہوں گے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ آج پھر لوگوں کو مارا گیا ہے یوں لگتا ہے کہ ملزمان آزادانہ گھوم رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ قتل جس کا بھی ہو قتل ہے، آج اگر ایک برادری کے لوگوں کو مارا جا رہا ہے تو کل دوسروں کو بھی مارنے لگیں گے۔
 ازخود نوٹس کیس کی قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے سلسلے میں بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ظہور احمد شاہوانی، بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر داؤد کاسی ایڈووکیٹ، بلوچستان بار کونسل کے ممبر کامران ملا خیل ایڈووکیٹ اور پاکستان بار کونسل کے ایاز ظہور ایڈووکیٹ نے عدالت کی معاونت کی، عدالت نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر عاصمہ جہانگیر اور انٹرنیشنل جیورسٹ کمیشن کو دوبارہ نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت 18 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
خبر کا کوڈ : 103933
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش