0
Thursday 6 Oct 2011 15:26

ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی ازخود نوٹس کا فیصلہ جاری کر دیا

ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی ازخود نوٹس کا فیصلہ جاری کر دیا
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس سے متعلق ازخود نوٹس کا فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سنایا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ بدامنی میں متوازن معاشرے کا قیام ممکن نہیں ہے قانون کی نظر میں تمام افراد برابر ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کوتحفظ دے اور بنیادی حقوق فراہم کرے۔ ملک میں معاشی سرگرمیاں بلاخوف و خطر جاری رہنی چاہیں۔ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کرے۔ حکومت بھی ریاست کے ساتھ وفاداری ظاہر کرے۔ امن وامان اور معاشی ترقی ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں کسی کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ قرآنی تعلیمات آئین پاکستان کا حصہ ہیں، فرقہ ورانہ اور لسانیت کے مسائل سے معاشرہ متاثر ہو سکتا ہے۔ جو کوئی کسی ایمان والے کو جان بوجھ کر قتل کریگا اس کی سزا سنگین ہے۔ ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان معمول بن جائے تو نہ حکومت چل سکتی ہے نہ معیشت۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں خطبہ حجتہ الوداع کا بھی حوالہ دیا گیا۔ کراچی میں بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ روزانہ کا معمول بن گیا ہے۔ کراچی میں امن وامان کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی گئی۔ حالات جب خراب ہوئے جب انیس سو بانوے میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا۔ پچاسی سے نوے کے دوران مختلف واقعات ہوئے۔ جس کے دوران کرفیو نافذ رہا۔ ایم کیو ایم کے اشتیاق اظہر نے اس وقت کراچی کی صورتحال پر درخواست دائر کی تھی۔ ایم کیو ایم نے درخواست دائر کی تھی کہ آئین کے مطابق سیاست کرنے دی جائے۔ ایم کیو ایم کی درخواست کو عدم پیروی کی وجہ سے مسترد کیا گیا تھا۔
کراچی کے مختلف علاقوں سے ٹارچر سیل اور تشدد کی ویڈیوز ملی ہیں۔ آئی جی نے رپورٹ پیش کی کہ تین سو افراد کو قتل کیا گیا۔ کراچی میں بدامنی جرائم پیشہ افراد کی کارروائی تسلیم نہیں کی جا سکتی ہے۔ ظلم کا شکار ہر زبان سے تعلق رکھنے والے بنے۔ اجمل پہاڑی سمیت دیگر ملزم سیاسی پناہ میں ہیں، عادی مجرم سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ کراچی میں بدامنی مختلف جماعتوں کے مالی مفادات کی جنگ ہے، پچاس فیصد پولیس کا عملہ تعاون نہیں کرتا، چالیس سے پچاس فیصد پولیس سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ زمان ٹاؤن کے ملزمان کو سیاسی پناہ حاصل ہے جو چھ پولیس اہلکاروں کے قاتل ہیں۔ ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود ملزمان کا سراغ نہیں مل سکا۔ سندھ حکومت نے بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ٹھوس اقدامات نہیں کئے۔
خبر کا کوڈ : 104232
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش