QR CodeQR Code

حقوق و فرائض کی ادائیگی سے ہی بہترین جمہوریت وجود میں آسکتی ہے، حجۃ الاسلام میثم طہ

23 Mar 2023 21:03

قم المقدس میں 23 مارچ کی مناسبت سے یوم تجدید عہد وفا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مذہبی اسکالر کا کہنا تھا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں دیندار اور فرض شناس افراد کو انکے حقوق اور فرائض کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔ حقوق کی ادائیگی کا معیار "ظالم کی شکم پُری اور مظلوم کی بھوک پر خاموش نہ رہنا" قرار دیا گیا ہے۔


اسلام ٹائمز۔ الاسوہ مرکز تعلیم و تربیت، ادارہ سیاسیات اور الھدیٰ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام قم المقدس میں 23 مارچ کی مناسبت سے یوم تجدید عہد وفا کانفرنس کا انعقاد۔ کانفرنس سے متعدد اسکالرز نے خطاب کیا۔ اس موقع پر حجۃ الاسلام مولانا  میثم طہ نے کہا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں دیندار اور فرض شناس افراد کو ان کے حقوق اور فرائض کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔ حقوق کی ادائیگی کا معیار "ظالم کی شکم پُری اور مظلوم کی بھوک پر خاموش نہ رہنا" قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے خطبہ 140 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں فرمایا ہے کہ اللہ کے عہد توڑے جا رہے ہیں اور تم غیض میں نہیں آتے، حالانکہ اپنے آباؤ اجداد کے قائم کردہ رسم و آئین کے توڑے جانے سے تمہارى رگِ حمیت جنبش میں آجاتی ہے۔ حالانکہ اب تک اللہ کے معاملات تمہارے ہی سامنے پیش ہوتے رہے اور تمہارے ہی (ذریعے سے) ان کا حل ہوتا رہا ہے اور تمہاری ہی طرف ہر پھر کر آتے ہیں۔ لیکن تم نے اپنی جگہ ظالموں کے حوالے کر دی ہے اور اپنی باگ ڈور انہیں تھما دی ہے اور اللہ کے معاملات انہیں سونپ دیئے ہیں کہ وہ شبہوں پر عمل پیرا اور نفسانی خواہشوں پر گامزن ہیں۔"

آقای میثم طہ نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال کا بہترین راہ حل نہج البلاغہ میں موجود ہے۔ ان کے مطابق ہمارے ملک پاکستان کی داغ بیل 1857ء کی جنگ آزادی سے شروع ہوچکی تھی، جو 90 سالوں کے بعد مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ ان 90 سالوں میں تین مراحل قابل غور ہیں:
1۔ نہرو رپورٹ کے مطابق ہندو مسلم اتحاد اور اکٹھا مل کر انتخابات میں حصہ لینا کہ کانگریسی ہندو مسلم رہنماوں کا یہی ایجنڈا تھا۔
2۔ سر سید احمد خان کے دو قومی نظریئے کے مطابق جداگانہ انتخابات میں حصہ لینا کہ مسلم لیگی رہنمائوں کا یہی موقف تھا۔
3۔ ان دو مواقف سے مختلف ایک تیسرا موقف "الگ ریاست کا تصور" بھی پیش کیا گیا۔

ہمیں مصور پاکستان، حکیم الامت اور دانائے راز، علامہ محمد اقبال کے فہم و فراست کی داد دینی پڑتی ہے کہ جس حقیقت کو قائداعظم سمیت دیگر مسلم رہنمائوں نے 1928ء میں سمجھا، اسے علامہ اقبال بہت پہلے 1907ء ہی میں جان گئے تھے۔ 1907ء میں وہ ہندو مسلم اتحاد کی خیالی جنت سے نکل کر دو قومی نظریئے کی ضرورت و اہمیت کو جان چکے تھے اور ان کا 1905ء سے پہلے کا لکھا ہوا "ہندوستانی بچوں کا گیت" تبدیل ہو کر اب "ملی ترانہ" بن چکا تھا اور "ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا" کے نغمے گانے والا اقبال اب "مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا" کے نغمے گنگنانے لگا تھا۔ علامہ اقبال کے دیدہ بینا نے دیکھ لیا تھا کہ نہ ہندو مسلم اتحاد ممکن ہے اور نہ ہی یہ وقت کی ضرورت ہے۔ ان کے یہی خیالات آخرکار 1930ء میں ان کے خطبہ الہٰ آباد میں ایک آزاد اسلامی ریاست کی تجویز کی شکل اختیار کر گئے۔

بالآخر وہ دن آگیا، جب 22 مارچ اور 24 مارچ 1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قرارداد لاہور جسے قرارداد پاکستان بھی کہا جاتا ہے، منظور کی گئی، جو دو قومی نظریہ کا منطقی نتیجہ اور قیام پاکستان کی منزل کا آخری سنگ میل ثابت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قرارداد پاکستان کی روح کو زندہ کرتے ہوئے تحریک پاکستان والے جذبے کو بیدار کریں، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لئے جدوجہد کریں اور جمہوریت، انصاف اور اسلامی اقدار کے قیام اور آمریت کے خاتمے کے لئے اقدامات کریں۔ پاکستانی معاشرے کو ناانصافی، ظلم، بے عدالتی، کرپشن، دہشت گردی، رشوت ستانی، فحاشی، عریانی، لاقانونیت اور دیگر معاشرتی برائیوں سے پاک کرکے ایک اسلامی، فلاحی، جمہوری اور نظریاتی مملکت بنانے کے لئے اپنی توانائیاں صرف کریں اور اس راستے میں بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کریں۔


خبر کا کوڈ: 1048351

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/1048351/حقوق-فرائض-کی-ادائیگی-سے-ہی-بہترین-جمہوریت-وجود-میں-آسکتی-ہے-حجۃ-الاسلام-میثم-طہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org