QR CodeQR Code

سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں؟، چیف جسٹس

28 Mar 2023 12:37

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں، سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے، اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر عدالت میں پیش نہ کیا جائے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ کتنے ارکان کا ہے، یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے، یہ بتائیں کہ کیا 90 روز میں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں ہے۔؟ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کرسکتا ہے۔؟


اسلام ٹائمز۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی، سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں؟، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہو جائے گی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال مندوخیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے نئے اٹارنی جنرل منصور عثمان کا عدالت میں خیر مقدم کیا، ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ آپ سے بہترین معاونت ملے گی۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں؟، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہو جائے گی۔

جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو فریق بنانے کیلئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا تھا، جمہوریت کیلئے قانون کی حکمرانی لازمی ہے، قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی، سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے۔ فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں اس وقت انارکی اور فاشزم ہے، عدالت ہمیں موقع دے تو کیس تیار کریں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سینیئر وکیل ہیں، کیس تو آپ کے دل میں ہے، کل بھی کہا تھا کہ قانونی معاملہ خلاء میں حل نہیں کیا جا سکتا، معاشرے اور سیاسی قیادت میں ڈسپلن کی ضرورت ہے۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ آئین زندہ دستاویز ہے، تشریح زمینی حالات پر ہی ہوسکتی ہے، موجودہ حالات میں جمہوریت اور ملک کیلئے کیا بہتر ہے، وہ تعین کرنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتیں اسٹیک ہولڈرز ہیں، انہیں لازمی سنا جائے، جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ یہ سوال پارلیمنٹ میں کیوں نہیں اٹھایا جاتا، جس پر فاروق نائیک نے کہا کہ معاملہ پارلیمان میں اٹھانے کا بھی سوچ رہے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو ججز نے پہلے فیصلہ دیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت سوال فیصلے کا نہیں الیکشن کمیشن کے اختیار کا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں، جس کی خلاف ورزی ہوئی، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے، موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پر عملدرآمد کی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بنچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں، آپ کا انحصار تکنیکی نکتے پر ہے، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا، اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں، منسوخ کرنے کا ہے، جمہوریت کے لئے انتخابات ضروری ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جائزہ لینا ہے کہ دی گئی تاریخ کی قانونی حیثیت ہے یا نہیں؟، الیکشن کمیشن یا کوئی اور کون ہوتا ہے جو ڈکٹیشن دے کہ اسمبلی تحلیل کرسکتے ہیں یا نہیں۔؟ انہوں نے اٹارنی جنرل کے دلائل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ دو ججز کے فیصلے کا اس مقدمہ سے تعلق نہیں ہے، فیصلہ کتنی اکثریت کا ہے، اس کا جائزہ بعد میں لیا جا سکتا ہے، فی الحال سنجیدہ معاملات سے توجہ نہ ہٹائی جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ کیس میں استدعا ہی اُس فیصلے پر عملدرآمد کی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ بنچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں، آپ کا انحصار تکنیکی نکتے پر ہے، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے مزید کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے، اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ موجودہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کا بھی نکتہ اٹھانا ہے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ درخواست ہے کہ یہ اہم معاملہ ہے اور بنچ مناسب سمجھے تو فل کورٹ بنا دے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں، سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے، اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر عدالت میں پیش نہ کیا جائے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ کتنے ارکان کا ہے، یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے، یہ بتائیں کہ کیا 90 روز میں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں ہے۔؟ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کرسکتا ہے۔؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں، لوگ آٹے کیلئے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں، تحریک انصاف اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملکی حالات کو بہتر کیا جائے، تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے۔پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی اعلیٰ قیادت سے بھی ایسے رویئے کی توقع ہے، پی ٹی آئی کو پہل کرنی ہوگی، کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے، ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، معاشی حالات دیکھیں آٹے کے لئے لائنیں لگی ہوئی ہیں، آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے ان لوگوں کا سوچیں۔ علی ظفر نے کہا کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو بحران مزید بڑھے گا۔

گذشتہ روز سماعت پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن اور گورنر خیبر پختونخوا کو نوٹسز جاری کئے تھے۔ عدالت کا اپنے حکم نامے میں کہنا تھا کہ بروقت الیکشن نہ کرانا بادی النظر میں عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، الیکشن میں تاخیر شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق متاثر کرنے کے مترادف ہے۔ حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ بروقت صاف، شفاف انتخابات یقینی بنانا جمہوری حکومت کیلئے انتہائی اہم ہے، آئین کے تحت شفاف، منصفانہ انتخابات جمہوری نظام کیلئے نہایت ضروری ہیں۔


خبر کا کوڈ: 1049163

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/1049163/سادہ-سا-سوال-ہے-کہ-الیکشن-کمیشن-تاریخ-ا-گے-کرسکتا-یا-نہیں-چیف-جسٹس

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org