QR CodeQR Code

الیکشن کیلئے پورا بجٹ ضروری نہیں، کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے، چیف جسٹس

28 Mar 2023 15:03

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کمیشن نے بعد میں 8 اکتوبر کی تاریخ غلط کیسے دی، وکیل علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن اکتوبر میں پھر کہہ دے کہ حالات ٹھیک نہیں تو کیا الیکشن جنوری تک جا سکتے ہیں، عدالت فیصلہ کرے تو آئی ایم ایف اور دوست ممالک خوش ہونگے، قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں، غیر آئنی اقدام کیخلاف عدالت ہی آخری دیوار ہے، آئین کا پہلا اصول اسلام دوسرا جمہوریت ہے، جمہوریت انتخابات ہی سے ہوتی ہے۔


اسلام ٹائمز۔ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں، بحران سے نمٹنے کے لیے قربانی دینا پڑتی ہے، الیکشن کے لئے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کیلئے کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال مندوخیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے نئے اٹارنی جنرل منصور عثمان کا عدالت میں خیر مقدم کیا، ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے آپ سے بہترین معاونت ملے گی۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں؟، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہو جائے گی۔

جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو فریق بنانے کیلئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا تھا، جمہوریت کیلئے قانون کی حکمرانی لازمی ہے، قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی، سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے۔ فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں اس وقت انارکی اور فاشزم ہے، عدالت ہمیں موقع دے تو کیس تیار کریں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سینیئر وکیل ہیں، کیس تو آپ کے دل میں ہے، کل بھی کہا تھا کہ قانونی معاملہ خلاء میں حل نہیں کیا جا سکتا، معاشرے اور سیاسی قیادت میں ڈسپلن کی ضرورت ہے۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ آئین زندہ دستاویز ہے، تشریح زمینی حالات پر ہی ہوسکتی ہے، موجودہ حالات میں جمہوریت اور ملک کیلئے کیا بہتر ہے، وہ تعین کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتیں اسٹیک ہولڈرز ہیں، انہیں لازمی سنا جائے، جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ یہ سوال پارلیمنٹ میں کیوں نہیں اٹھایا جاتا، جس پر فاروق نائیک نے کہا کہ معاملہ پارلیمان میں اٹھانے کا بھی سوچ رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو ججز نے پہلے فیصلہ دیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت سوال فیصلے کا نہیں الیکشن کمیشن کے اختیار کا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں، جس کی خلاف ورزی ہوئی، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے، موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پر عملدرآمد کی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بنچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں، آپ کا انحصار تکنیکی نکتے پر ہے، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا، اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے، جمہوریت کے لئے انتخابات ضروری ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جائزہ لینا ہے کہ دی گئی تاریخ کی قانونی حیثیت ہے یا نہیں؟، الیکشن کمیشن یا کوئی اور کون ہوتا ہے جو ڈکٹیشن دے کہ اسمبلی تحلیل کرسکتے ہیں یا نہیں۔؟

انہوں نے اٹارنی جنرل کے دلائل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ دو ججز کے فیصلے کا اس مقدمہ سے تعلق نہیں ہے، فیصلہ کتنی اکثریت کا ہے، اس کا جائزہ بعد میں لیا جا سکتا ہے، فی الحال سنجیدہ معاملات سے توجہ نہ ہٹائی جائے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے مزید کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے، اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ موجودہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کا بھی نکتہ اٹھانا ہے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ درخواست ہے کہ یہ اہم معاملہ ہے اور بنچ مناسب سمجھے تو فل کورٹ بنا دے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں، سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے، اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر عدالت میں پیش نہ کیا جائے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ کتنے ارکان کا ہے، یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے، یہ بتائیں کہ کیا 90 روز میں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں ہے۔؟ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کر سکتا ہے۔؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں، لوگ آٹے کیلئے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں، تحریک انصاف اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملکی حالات کو بہتر کیا جائے، تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی اعلیٰ قیادت سے بھی ایسے رویئے کی توقع ہے، پی ٹی آئی کو پہل کرنی ہوگی، کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے، ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، معاشی حالات دیکھیں آٹے کے لئے لائنیں لگی ہوئی ہیں، آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے ان لوگوں کا سوچیں۔ علی ظفر نے کہا کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو بحران مزید بڑھے گا۔

جسٹس امین الدین خان نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ کیا الیکشن شیڈول 90 دن سے کم کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس 90 دن کے اندر شیڈول ایڈجسٹ کرنے کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن بظاہر 90 دن سے تاخیر نہیں کرسکتا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 90 دن اب بھی گزر گئے ہیں، آئین کی ہمارے ملک میں کوئی پروا نہیں کرتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اب 90 دن سے زیادہ تاریح کون بڑھائے گا؟، سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیئے۔ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ منتحب نمائندے ہوتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر وزیراعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آجائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ کو اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیئے، جس پر وکیل نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کرسکتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ صدر مملکت کی تاریخ پر الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا، سوال یہ ہے کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ صدر مملکت کی تاریخ کو تبدیل کر دے؟، کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیر کرسکتا ہے؟، سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن ایسا کرسکتا ہے؟ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب کی حد تک عدالتی فیصلے پر عمل کیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ کا تعین کرنے کا اختیار ہے۔؟ کیا الیکشن کمیشن صدر کی تاریخ کو تبدیل کرسکتا ہے؟، الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتخابات منسوح کرنے کی اجازت نہیں دیتا، 2008ء میں انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تھے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کے دو آرٹیکلز کا سہارا لیا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا کہ آئینی ذمے داری ادا کرنے سے قاصر ہیں، اگر الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا۔؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریح تبدیل کرنے کے لیے صدر سے رجوع کرسکتا تھا، تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں، وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی کمیشن رجوع کرسکتا ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے، الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے مؤقف لے کر فیصلہ لکھ دیا، عدالت کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا، انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو آرٹیکل 5 کا اطلاق ہوگا، ہر ادارہ آئین اور شخص قانون پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ پہلے ہی 90 دن کے بعد کی تھی، کیا 90 دن بعد کی تاریخ درست تھی؟، وکیل علی ظفر نے کہا کہ اب بھی عدالت حکم دے تو 90 دن میں الیکشن نہیں ہوسکتا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صدر نے بھی الیکشن تاریخ 90 دن کے بعد کی دی، آرٹیکل 254 کا سہارا کام ہونے کے بعد لیا جا سکتا ہے پہلے نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عملی طور پر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت حکم دے سکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیئے تھا، ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو جائے تو ایک ہی دن انتخابات کے لئے رجوع کیا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن ازخود ایسا حکم جاری نہیں کرسکتا، الیکشن کمیشن 6 ماہ الیکشن آگے کرسکتا ہے تو 2 سال بھی کرسکے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیئے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہوگا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں، ان کا کیا ہوگا۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ جس بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوئے اس طرح تو کبھی الیکشن نہیں ہوسکتے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر فنڈز کا معاملہ ہے تو نگراں حکومت فنڈز کیسے دے گی، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو مسائل آج ہیں، وہ 8 اکتوبر کو کیسے نہیں ہوں گے۔؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا فنڈز فراہم نہیں کئے گئے، الیکشن کمیشن نے کبھی فنڈز دینے کی ہدایت نہیں کی تھی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اخبار میں وزیراعظم کا بیان پڑھا تھا، وفاقی حکومت کہتی ہے کہ فروری تک 500 ارب ٹیکس جمع کیا، حیرت ہے کہ 500 میں سے 20 ارب نہیں دیئے گئے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکمنامے کے مطابق سیکرٹری خزانہ نے کہا فنڈز دینا مشکل ہوگا، وزارت خزانہ نے مشکل کہا تھا، انکار نہیں کیا تھا، سیکرٹری خزانہ نے تو کہا الیکشن کے لئے فنڈز نہ ابھی ہیں، نہ آگے ہوں گے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ الیکشن تو ہوں گے ہی نہیں، حکومت کا کوئی سیکرٹری ایسا بیان کیسے دے سکتا ہے، ٹیکس جمع ہو کر فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں جاتا ہے۔ وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز کے اخراجات پارلیمنٹ کی منظوری سے خرچ ہوتے ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر اسمبلی تحلیل ہو جائے تو کیا فنڈز جاری ہی نہیں ہوسکیں گے؟، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ موجودہ کیس میں قومی اسمبلی موجود ہے، نئی اسمبلی اخراجات کی منظوری دیتی ہے، سیکرٹری خزانہ کے بیان کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیکرٹری خزانہ منظور کردہ بجٹ سے ہٹ کر فنڈز کیسے دے سکتا ہے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ تکنیکی نقطہ ہے کہ پیسے کہاں سے آنے ہیں۔؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے، حکومت اخراجات کم کرکے 20 ارب نکال سکتی ہے، ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے، اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، بحران سے نمٹنے کے لیے قربانی دینا ہوتی ہے، 5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سب سے زیادہ آپریشن کیے، پنجاب میں اب تک صرف 61 آپریشن ہوئے، سندھ میں 367 جبکہ خیبر پختونخوا میں 1245 آپریشن ہوئے، پنجاب کی صورتحال خیبر پختونخوا سے مختلف ہے، ترکی زلزلہ متاثرہ علاقوں کے علاوہ ہر جگہ الیکشن ہو رہے ہیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ بھی کہتا ہے کہ جہاں مسئلہ ہو، وہاں پولنگ منسوخ ہوسکتی ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ پورا الیکشن ملتوی کر دیا جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کئے جا سکتے ہیں۔ سماعت کے دوران عدالت میں ایبسلوٹلی ناٹ کا تذکرہ بھی ہوا، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات کرتا ہے؟ جس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا ایبسلوٹلی ناٹ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایبسلوٹلی ناٹ تو آپ نے کسی اور کو کہا تھا، چیف جسٹس کے ریمارکس پر عدالت میں قہقے لگ گئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا بجٹ میں انتخابات کے لیے فنڈز مختص ہیں؟، اگر فنڈز نہیں ہیں تو فنڈز لینے کا طریقہ کار آئین میں درج ہے۔ وکیل علی ظفر نے بتایا کہ گذشتہ سال چیف الیکشن کمشنر نے بتایا تھا کہ نومبر 2022ء میں الیکشن کے لیے تیار ہیں، اب الیکشن کمیشن اچانک کہتا ہے فنڈز نہیں ہیں، فنڈز نہ ہونا الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی بہانہ نہیں، الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی عملہ موجود ہے، سکیورٹی فراہم کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے، سکیورٹی اہلکاروں کی عدم دستیابی کا ذکر کیا گیا ہے، پولیس نفری کم ہونے کا بہانہ تو ہمیشہ رہے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے سابق چیف جسٹس کو قتل کر دیا گیا، کیا یہ ٹھوس وجہ نہیں ہے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ ایسی بھی وجہ نہیں ہے کہ الیکشن نہ کروائے جائیں، کیا نگراں حکومت نفری دینے سے انکار کرسکتی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وہ اختیار استعمال کیا، جو اس کا تھا ہی نہیں، الیکشن کمیشن ہائیکورٹ سے بھی رجوع کرسکتا تھا، وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا تو معاملہ یہیں آنا تھا، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ جانے سے آپ کو کیا مسئلہ ہے؟، جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ وقت کی قلت ہے، مزید چارہ جوئی میں مزید وقت ضائع نہیں کرسکتے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین واضح ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہائیکورٹ نے کروانا ہے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ معاملہ دو صوبوں کا ہے، ایک ہائیکورٹ عمل نہیں کروا سکتی، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے احکامات کو تبدیل نہیں کرسکتی۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، مناسب ہوگا کہ سپریم کورٹ خود کیس سنے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن انتظامی اداروں کے خلاف خود کارروائی کرسکتا ہے؟، وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اداروں کو ہدایات جاری کرسکتا ہے، ادارے عملدرآمد نہ کریں تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن نے عدالت کو کہا تھا کہ وہ تاریخ مقرر نہیں کرسکتے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کمیشن نے بعد میں 8 اکتوبر کی تاریخ غلط کیسے دی، وکیل علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن اکتوبر میں پھر کہہ دے کہ حالات ٹھیک نہیں تو کیا الیکشن جنوری تک جا سکتے ہیں، عدالت فیصلہ کرے تو آئی ایم ایف اور دوست ممالک خوش ہوں گے، قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں، غیر آئنی اقدام کے خلاف عدالت ہی آخری دیوار ہے، آئین کا پہلا اصول اسلام دوسرا جمہوریت ہے، جمہوریت انتخابات ہی سے ہوتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیکشن 58 کا اختیار کمیشن کو الیکشن ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن اپنا حکم واپس لے کر کہے کوئی مدد نہیں کر رہا تو کیا ہوگا۔؟ اپنی مشکلات حل کروانے کے لیے کمیشن کو عدالت ہی آنا ہوگا۔ وکیل علی ظفر کے دلائل کے بعد عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا۔ گذشتہ روز سماعت پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن اور گورنر خیبرپختونخوا کو نوٹسز جاری کئے تھے۔ عدالت کا اپنے حکم نامے میں کہنا تھا کہ بروقت الیکشن نہ کرانا بادی النظر میں عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، الیکشن میں تاخیر شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق متاثر کرنے کے مترادف ہے۔ حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ بروقت صاف، شفاف انتخابات یقینی بنانا جمہوری حکومت کیلئے انتہائی اہم ہے، آئین کے تحت شفاف، منصفانہ انتخابات جمہوری نظام کیلئے نہایت ضروری ہیں۔


خبر کا کوڈ: 1049176

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/1049176/الیکشن-کیلئے-پورا-بجٹ-ضروری-نہیں-کٹ-ہماری-تنخواہوں-پر-بھی-لگایا-جاسکتا-ہے-چیف-جسٹس

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org