0
Friday 31 Mar 2023 02:13

بنچ بنانے پر اختلاف، حل سپریم کورٹ ہی تلاش کریگا، بیرسٹر علی ظفر

بنچ بنانے پر اختلاف، حل سپریم کورٹ ہی تلاش کریگا، بیرسٹر علی ظفر
اسلام ٹائمز۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی مسئلے کا فائنل لائن آف ڈیفنس سپریم کورٹ ہی ہے، بنچ بنانے کے بارے میں اگر کوئی اختلاف رائے ہوا ہے تو اس کا حل سپریم کورٹ خود ہی کرے گا۔ وزیر مملکت برائے پٹرولیم، سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ اگر اس ادارے کا بھی وقار چلا جائے تو پھر معاشرے میں رہ کیا جائے گا۔ وائس چیئرمین، پاکستان بار کونسل، ہارون الرشید نے کہا کہ عوام اور سارے اداروں کو اعتماد ہونا چاہیئے کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی، وہ قوم اور ملک کی بہتری کے لئے ہوگا۔ وکیل تحریک انصاف، سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جو آئینی مسئلہ ہے، ملک میں بہت بڑا بحران ہے، سیاسی اور معاشی مسائل بھی ہیں۔ یہ جو آئینی مسئلہ ہے کہ الیکشن90 دن کے اندر ہونا چاہئیں اور الیکشن ہو نہیں رہا۔ ہائی کورٹ نے بھی فیصلہ کیا، سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ کیا، مگر اس کے باوجود الیکشن کمیشن آف پاکستان 30 اپریل سے تاریخ کو تبدیل کرکے اکتوبر میں لے گئے۔

یہ جو آئینی مسئلہ ہے، اس کی فائنل لائن آف ڈیفنس سپریم کورٹ ہی ہے۔ یہ ہر جج کا بنیادی حق ہے کہ وہ کسی ایشو پر اتفاق کرے، کسی پر نہ کرے۔ بنچ بنانے کے بارے میں اگر کوئی اختلاف رائے ہوا ہے تو اس کا حل سپریم کورٹ خود ہی کرے گا۔ فی الحال اہم چیز ہے کہ الیکشن کے بارے میں جو آئینی بحران ہے، اس کا حل، اس کا کوئی فیصلہ آجائے۔ سپریم کورٹ اسی لئے آج دوبارہ بیٹھ رہا ہے کہ جو کیس شروع ہوا تھا، اس میں اسے اگر ایک جج نکل بھی جائیں تو باقی جو جج رہ جاتے ہیں، وہ فیصلہ کرسکتے ہیں۔ الیکشن کے فیصلے کے علاوہ دوسرا فیصلہ بھی ضروری ہے کہ آرٹیکل184/3 کی کارروائی ہوتی ہے، اس کے اوپر رولز بنیں، سارے جج صاحبان بیٹھ کر اس کا کوئی حل ڈھونڈیں۔ جہاں تک پی ٹی آئی کا یا میرا تعلق ہے، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کیس کو فل کورٹ سنے، 9 ممبر بینچ سنے یا 3 ممبر بینچ سنے۔

کوئی بھی جج سن لے، فیصلہ جلد آجائے، جو بھی فیصلہ ہوگا، ہم مانیں گے۔ جو چیز ماضی میں بند ہو جائے، اس کو آپ قانون سازی کے ذریعے دوبارہ کھول نہیں سکتے، یہ قانون ہے، آپ اس کو اچھا قانون سمجھیں یا برا قانون سمجھیں، قانون یہی ہے۔ اگر آپ کسی کو اس طرح اجازت دیں کہ پرانے کیسز کھول دیں اور دوبارہ سے اس فورم پر چلا جائے تو وہ چونکہ غیر آئینی قانون ہوگا تو اس کو کوئی بھی چیلنج کرکے کالعدم قرار دلوا سکتا ہے۔ اگر آپ ایک شخص کو بچانے کے لئے آپ کہتے ہیں کہ آرٹیکل 184 کے کیسز ہیں، دوبارہ سے ان کی سماعت ہوگی اور اپیلیٹ فورم ان کو سنے گا تو لاکھوں کیس184/3 کے تحت فیصلے ہوچکے ہیں، وہ قانون پھر سب پر لاگو ہوگا، وہ دوبارہ کھل سکیں گے تو آپ کا عدالتی نظام ختم ہو جائے گا۔ آپ کو تو پھر الگ کورٹ بنانا پڑے گا،جو صرف یہی کام کرتا رہے۔

وزیر مملکت برائے پٹرولیم، سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ یہ جو بل تھا، یہ 90 دن کا بل تو تھا نہیں، 90 بڑی اہمیت کا حامل ہے اور ایک آئینی مسئلہ ہے، مگر یہ جو آوازیں آپ کو سنائی دے رہی ہیں، اس کا اس سے تو کوئی تعلق نہیں ہے۔ 184/3 کا جو دائرہ کار ہے اور بینچ کیسے بنیں گے۔ بینچ میں کس کو ہونا چاہیئے اور بینچ کتنا بڑا ہونا چاہیئے، اس کا اس 90 دن سے تعلق بالواسطہ ہے۔ اصل بات کچھ اور ہے، ہم تو سیاستدان ہیں، پولورائزڈ رائے ہوتی ہے، یہ جو وکلا برادری تمام باتیں کر رہی ہیں تو یہ کیا مسئلہ ہے، یہ غیر آئینی مسئلہ ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جو لکھا ہے، وہ کیا غیر آئینی لکھا ہے، وہ آئینی مسئلہ نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جو ایک فیصلہ دیا ہے، اس کا آئین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

آج جو ایک جسٹس نے اپنے آپ کو بینچ سے ہٹا لیا ہے، اس کا بھی آئین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ماسوا اس کیس کے جو ایک رخ سے پیش کیا جا رہا ہے، باقی تمام چیزوں کا آئین سے کوئی تعلق نہیں ہے، بس اسی کا آئین سے تعلق ہے۔ آپ سیاستدانوں کی اور وکلا کی آواز چھوڑیں، آپ اپنے ججوں کی آواز سن لیں۔ عوام کیا کریں، کوئی بحران تو ہے، کوئی مسئلہ تو ہے، جو بڑا گہرا ہے، اتنا سادہ نہیں ہے، جتنا اس کو فریم کیا جا رہا ہے۔ اگر اس ادارے کا بھی وقار چلا جائے تو پھر معاشرے میں رہ کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 1049728
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش