0
Wednesday 7 Jun 2023 22:56

جبر کا موسم اور جمہوریت کے دلدادہ

جبر کا موسم اور جمہوریت کے دلدادہ
تحریر: ارشاد حسین ناصر

عجیب جبر کا موسم چل رہا ہے، زبردستی پارٹی تبدیل کروانے، پریس کانفرنسز کروانے کے تماشے، 3 ایم پی او کے تحت سینکڑوں لوگوں بشمول عہدیداران و قائدین کو اذیت ناک انداز میں جیلوں میں ٹھونسنے، خواتین کو گرفتار کرکے بھونڈے انداز میں گھروں سے لے جانے، چادر و چار دیواری کا تقدس پائمال کرتے ہوئے بلا وارنٹ و خواتین پولیس کی عدم موجودگی میں گھروں پر پولیس چھاپے، گھروں میں مطلوبہ بندے کی عدم موجودگی میں گھر کے مہمانوں تک کو اٹھا لے جانے، گھروں میں موجود نقدی و قیمتی سامان کے اٹھا لے جانے کی بیسیوں فوٹیجز جبکہ سینکڑوں شکایات دیکھنے، سننے کو ملی ہیں۔ یہ جبر کا ایسا موسم ہے، جسے اس سے قبل نہ دیکھا گیا تھا، اکا دکا واقعات تو ہر دور میں ہوتے رہے ہیں، مگر اس طرح منظم انداز میں جبر کی مہم ایک ہی پارٹی اور اس کے ہمدردوں و عہدیداران کے خلاف پہلی بار دیکھا جا رہا ہے، اس وقت چونکہ پی ٹی آئی ایک طرف، جبکہ اسٹیبلشمنٹ، مقتدر قوتیں، حکمران اتحاد، میڈیا، اینکرز دوسری جانب واضح طور پر کھڑے دیکھے جا رہے ہیں تو یہ سب کچھ کسی اندھے کیلئے بھی واضح ہے کہ فقط ایک ہی پارٹی اور اس کی قیادت ہی سب تیروں کا نشانہ ہیں۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب سے پی ٹی آئی کے ورکرز، فالورز، رہنماء، جیلوں سے پریس کلب کے لائیو سیشنز کے دلہے بننے شروع ہوئے ہیں، سوشل میڈیا پر ماضی کے آمروں کے مظالم اور ظلم و تشدد برداشت کرنے والوں کے قصے سامنے لائے جا رہے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ماضی میں بدترین آمریت میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ضیاء آمریت کا سامنا رہا ہے۔ جنرل ضیاء نے آئین معطل کر دیا تھا، منتخب وزیراعظم کو ایک فرضی کیس میں پھانسی دے دی تھی اور فوجی آمریت مسلط کر دی تھی، جس میں اس نے ایک مجلس شوریٰ بھی تشکیل دی تھی، مجلس شوریٰ میں اپنے من پسند لوگوں کو رکھا تھا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی، جو اس وقت کی سب سے پاپولر عوامی جماعت تھی، اس کو شدید سختیوں، اذیت ناک سزائوں، کال کوٹھڑیوں، شاہی قلعہ کی سخت ترین جیلوں میں ڈالا جاتا تھا جبکہ پھانسیوں اور سرعام کوڑوں کی سزائوں کا چلن بھی عام تھا۔

اب جب پی ٹی آئی پر ایسے ہی حالات آئے ہیں تو ماضی کے قصے، کہانیاں اور پوشیدہ یا پس پردہ چلے جانے والے قصے بھی سامنے لائے گئے ہیں، یہ قصے کتابوں میں محفوظ رہ گئے تھے، اچھا ہوا کہ جب ایک بار پھر جبر کا موسم آیا تو لوگوں نے ان قصوں کو بھی یاد کر لیا، اس وقت جبر سہنے والوں کی بہادری اور جرات کو آج سراہا جانا اچھی بات ہے، اس لیے کہ آج ان کرداروں پر کون دھیان دیتا، کون ان رسموں کا رواج دہراتا، اس سے یہ بھی تو واضح ہوتا ہے کہ اس ملک کے اصل حکمرانوں کی سیاہ تاریخ یہی ہے، ہاں آج کی سفاکیت، بدمعاشی، غیر قانونی و غیر انسانی اقدامات اور جنرل ضیاء کے مارشل لا میں دہرائے جانے والے اقدامات میں یہ فرق ضرور ہے کہ آج جمہوریت کے نام پر سب کچھ ہو رہا ہے، آج بہ ظاہر عدالتیں آزاد ہیں، مارشل لا نہیں، پارلیمنٹ موجود ہے، میڈیا اگرچہ کنٹرول ہوچکا ہے، مگر پھر بھی کسی نہ کسی ذریعہ سے آواز باہر نکل ہی آتی ہے، اس نام نہاد جمہوری دور میں روا رکھے جانے والے سلوک اور مارشل لا ادوار میں روا رکھے جانے والے مظالم میں فرق رکھنا چاہیئے۔

مارشل لا اور آمریت میں تو آئین معطل ہوتا ہے، عدالتیں کنٹرول ہوتی ہیں، فوجی عدالتیں فیصلے کرتی ہیں، آج تو بہ ظاہر آئین معطل نہیں، مگر عملی طور پر بنیادی انسانی حقوق پائمال ہیں، فرق یہ ہے کہ وہ سب کچھ ایک آمر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے، اپنے غیر آئینی اقدام کو جبر و ظلم کے ذریعے مسلط کئے ہوا تھا، جبکہ آج جمہوریت، آئین، پارلیمان، عدلیہ کی آزادی، بنیادی انسانی حقوق کی علمبردار، اس وقت آمریت کے عتاب کا شکار ہو کر آج تک نوحہ خوانی کرنے والی جماعتیں بھی اس سب کچھ پر نا فقط خوش ہیں بلکہ شریک جرم ہیں، آج اگرچہ عدالتیں آزاد ہیں مگر ان کی وقعت اور اہمیت اتنی سی ہے کہ کسی بھی کیس میں اپنے دیئے حکم پر عمل درآمد کروانے کی سکت نہیں رکھتیں، وجہ کیا ہے، واضح طور پر بلیک میلنگ جاری ہے۔ ویڈیوز، آڈیوز لیک سے مبینہ طور پر فیصلے تبدیل کروائے جا رہے ہیں، 9 مئی کی آڑ میں اتنا کچھ ہو رہا ہے، جس کے بارے کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اس دن سے قبل اور آج ماحول یکسر تبدیل ہوچکا ہے۔

9 مئی سے قبل پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ کی پوزیشن جس قدر مضبوط تھی، آج اس کی بہ نسبت بہت فرق پڑ چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے اہم ترین مرکزی، صوبائی عہدیداران با دل نخواستہ پارٹی چھوڑنے یا سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کرچکے ہیں، ان میں بہت سے ایسے بھی ہیں، جن کے جانے سے یقیناً پارٹی اور اس کے چیئرمین کو جھٹکا بھی لگا ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی اور عمران خان کی مقبولیت پہلے سے بھی بڑھی ہے، مگر جن قوتوں نے یہ اسٹریٹیجی بنائی ہے، انہوں نے اگلے قدم بھی سوچ رکھے ہیں کہ کیسے اس مقبول سیاسی قیادت کو کنارے لگانا ہے۔ بہت سے اقدامات اور ارادوں سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ الیکشن ہوئے تو ان میں عمران خان نہیں ہونگے، کئی ایک آپشن ہوسکتے ہیں، بشمول کہ عمران خان کو نااہل قرار دے دیا جائے۔

دوسرا عمران خان کو کسی قتل کے مقدمے میں پھنسا کر قید کر لیا جائے، تیسرا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عمران خان سے جینے کا حق ہی چھین لیا جائے، ان تینوں آپشنز کا تعلق اس صورت میں ہے کہ عمران خان ابھی تک ملک چھوڑنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا، اس کا چانس بھی بہت کم ہے، سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اس ملک میں پچھتر برس میں جس نے بھی مقتدر قوتوں کو للکارا ہے، ان کی راہ میں روڑے اٹکائے ہیں، ان کو ان کے آئینی کردار تک محدود کرنے کی کوشش کی ہے، اسے کھڈے لائن لگا دیا گیا۔ اسی مقصد کے تحت ہی سیاست دانوں کو باہم لڑایا جاتا ہے، ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کیا جاتا رہا ہے، یعنی لڑائو اور حکومت کرو کی پرانی پالیسی پر عمل درآمد کیا جاتا رہا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر عمران خان کے پونے چار سالہ دور اقتدار اور ان کی ذات سے بہت سی شکایات اور اعتراضات رہے ہیں، مگر اس میں شک نہیں کہ وہ دیگر سیاستدانوں سے مختلف ہے، اس میں ملک کی نمائندگی کرنے اور اپنے ملک کا موقف بڑے سے بڑے پلیٹ فارم پر پیش کرنے کا ہنر معلوم ہے۔

اس کیساتھ ساتھ اس کی سوچ باقیوں سے اتنی مختلف ہے کہ وہ کہتا ہے کہ امریکہ سمیت بڑی طاقتوں سے ہمارے تعلقات برابری کی بنیاد پر ہونے چاہیئے، نہ کہ آقا و غلام کے جیسے۔ اس نے ایک انٹرویو میں واضح طور پر کہا کہ دوستوں میں امیر غریب ہوتے ہیں، دوستی کا تعلق امارت و غربت سے نہیں لگایا جا سکتا، اسی طرح اس نے یہ بھی کہا کہ ایک وزیراعظم یا ملک کے سربراہ کیلئے زیبا نہیں کہ وہ دوسرے ممالک میں جا کر بھیک مانگتا پھرے، باقیوں کی سوچ اس سے یکسر مختلف ہے اور امداد مانگنے کا انداز بھی بے حد شرمناک ہے۔ بہرحال آج پی ٹی آئی پر سختیاں اور جبر کا موسم کل ٹل جائے گا، اس لئے کہ کوئی بھی سدا رہنے کو نہیں آیا، جن کے بل بوتے پر آج کے سیاستدان اپنے ہی قبیلہ کیلئے سامان جبر کئے ہوئے ہیں، کل انہی کے بارے کہتے تھے کہ آپ تو تین سال کیلئے ہو، آپ نے چلے جانا ہے، واقعاً وہ چلے گئے ہیں، یہ بھی چلے جائیں گے، پھر آپ اسی عوام میں جائیں گے اور عوام کھلی آنکھوں یہ دیکھ رہی ہے کہ بقول فیض احمد فیض
پھر حشر کے ساماں ہوئے ایوان ہوس میں
بیٹھے ہیں ذوی العدل گنہ گار کھڑے ہیں
ہاں جرم وفا دیکھیے کس کس پہ ہے ثابت
وہ سارے خطا کار سردار کھڑے ہیں


اور مظفر رزمی کی زبانی یہ سبق بہت پہلے پڑھا تھا کہ
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

غیر مرئی، غیر منتخب، غیر دستوری قوتوں کو جتنی چھوٹ آپ نے آج دی ہے، یہ چند لمحے کی خوشی و مسرت کا ساماں کر دیں گے، مگر مستقبل کیلئے جتنا خطرناک اور شرمناک ہے، اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ مت بھولیں کہ یہ سیاہ تاریخ کے ابواب جو رقم کئے جا رہے ہیں، جو فسطائیت کے منظر دیکھے جا رہے ہیں، یہ زود گزر ہیں، تلخ ہیں مگر ایسے میں ہی مردوں کے جوہر کھلتے ہیں، وفائوں کی داستانیں، جرات کی کہانیاں، استقامت کے کوہ گراں، ظلم کے مقابل چٹان بن کر کھڑے ہونے والے کردار بھی نکھرتے ہیں، ان کے چہروں پر پڑی گرد چھٹ جاتی ہے تو ان کی پہچان ہونے لگتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1062544
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش