0
Friday 21 Oct 2011 00:26

جنوبی پنجاب میں خواتین قیدیوں پر پولیس تشدد کا انکشاف

جنوبی پنجاب میں خواتین قیدیوں پر پولیس تشدد کا انکشاف
بہاولپور:اسلام ٹائمز۔ جنوبی پنجاب میں پولیس کے تشدد کی داستانیں اکثر منظر عام پر آتی رہی ہیں، لیکن اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس خطہ میں مرد قیدیوں کے بعد خواتین پر بھی تشدد کے واقعات کا انکشاف ہوا ہے، انسانی حقوق کے تحفظ سے کیلئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے نمائندے کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولپور میں عورتوں کو جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی تصدیق کی جا سکتی ہے اور اس صورتحال سے متعلقہ حکام کو بھی آگاہ کیا گیا ہے جبکہ ہماری اطلاعات کے مطابق سرائیکی خطہ کی مختلف جیلوں اور حوالات میں بھی اس قسم کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔
 ذرائع کا کہنا ہے کہ حوالات میں پیش آنے والے اکثر واقعات میں ایسی خواتین زیرعتاب آتی ہیں جو پولیس کی جانب سے رشوت کا مطالبہ پورا نہ کر سکتی ہوں، جبکہ جیل میں بعض واقعات عملہ کی خواتین کی مدد سے پیش آئے، گذشتہ سال ایک بین الاقوامی ادارہ کی جانب سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں زیرحراست افراد پر تشدد کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں پیش آئے، جن میں اکثر ملزم اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ زیادہ تر واقعات منظر عام پر نہیں آئے کیونکہ اکثر اوقات مرنے والے افراد کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا جو بااثر نہ ہونے کے باعث مقدمات کا اندراج نہیں کرا سکے۔
گذشتہ دنوں بہاولپور میں ''پولیس کے زیر حراست خواتین پر تشدد اور بدسلوکی کا خاتمہ'' کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا، چولستان ڈویلپمنٹ کونسل اور تحفظ خواتین فورم کے زیراہتمام اس پروگرام میں خواتین پر جسمانی اور جنسی تشدد کی روک تھام اور پولیس کے رویہ میں تبدیلی کیلئے سیر حاصل گفتگو کی گئی، سیمینار میں چولستان ڈویلپمنٹ کونسل کے ڈائریکٹر فاروق احمد خان، آکسفیم جی بی کی پروگرام کوآرڈینیٹر فیروزہ زاہرہ، سائوتھ ایشیاء پارٹنر شپ پاکستان کی منیجر ایڈوکیسی ذکیہ ارشد، چولستان ڈویلپمنٹ کونسل کی پروگرام منیجر مسز رضیہ ملک، کمپینگ آفیسر علیم احمد خان، پروگرام آفیسر ثمرین مظہر کے علاوہ ڈاکٹر جاوید اقبال، ڈی ایس پی لیگل جمیل چوہان، سپریٹنڈنٹ دارالامان سحر صدیقہ، ڈپٹی سپریٹنڈینٹ نیو سینٹرل جیل کوثر پروین، جمشید عثمان شامی ایڈوکیٹ، میڈیا کے نمائندوں اور دیگر افراد نے شرکت کی۔
 اس موقع پر پولیس کے زیر حراست خواتین پر تشدد اور بدسلوکی کے افسوسناک واقعات کا جائزہ لیا گیا اور یہ طے پایا کہ بہاولپور میں محکمہ پولیس، جیل خانہ جات اور دارالامان کے حکام خواتین کے حقوق اور تحفظ کیلئے بھرپور تعاون کریں، تاکہ سابقہ کوششوں سے جو مثبت نتائج سامنے آئے ہیں اس سلسلے کو جاری رکھا جائے، شرکاء نے یہ بھی تجویز دی کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے موضوعات کو تعلیمی نصاب میں بھی شامل کیا جائے۔
اس موقع پر چولستان ڈویلپمنٹ کونسل کے ڈائریکٹر فاروق احمد خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پولیس حراست کے دوران خواتین پر تشدد کے خاتمہ کے لئے مناسب اقدامات کی ضرورت ہے، زیر حراست خواتین پر جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ جنسی طور پر ہراساں کرنے اور بداخلاقی کے واقعات کی اطلاعات قابل تشویش ہیں، ایسے ناخوشگوار واقعات انسانی حقوق اور ملکی آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہیں، اصلاح احوال کیلئے محکمہ پولیس، جیل خانہ جات اور دارالامان کے افسران اور ماتحت عملہ کے ساتھ مشاورت بے حد ضروری ہے، اس ضمن میں غیر سرکاری تنظیموں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
فاروق احمد خان نے مزید کہا کہ چولستان ڈویلپمنٹ کونسل پولیس حراست کے دوران خواتین پر تشدد اور بد سلوکی کے واقعات کی روک تھام کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے میں ہے، ہماری ٹیموں نے متعد بار بہاولپور میں نیو سینٹرل جیل اور دارالامان میں موجود خواتین سے مل کر انکے حالات معلوم کیے ہیں اور متعلقہ حکام کو اصلاحی اقدامات کی نشاندہی بھی کی ہے، جس کے نتیجے میں اصلاح کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
آکسفیم جی بی اسلام آباد کی پروگرام کوآرڈینیٹر فیروزہ زہرہ نے اپنے خطاب میں سیمینار کے شرکاء کو بتایا کہ پولیس، جیل خانہ جات اور دارالامان میں اصلاح احوال کے لئے مرکزی صوبائی سطحوں پر بھی حکام بالا سے رابطے کر کے پالیسی سازی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ خواتین کے حقوق اور تحفظ کے عمل کو متعلقہ محکموں کی پالیسی کا حصہ بنایا جا سکے، اس موقع پر پروگرام کے دیگر شرکاء نے بھی ان شکایات کا اظہار کیا کہ انہیں ذاتی طور پر بھی خواتین پر تشدد کے واقعات کا مشاہدہ رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کا آئین اور قانون کسی طور پر کسی انسان پر تشدد کی اجازت نہیں دیتا، اگر کوئی ملزم یا مجرم ہو تو اس کیلئے سزائیں متعین ہیں، مگر پولیس کو یہ حق کسی صورت حاصل نہیں کہ وہ خواتین تو کیا مرد قیدیوں پر بھی تشدد کرے۔
 قبل ازیں ڈائریکٹر سی ڈی سی فاروق احمد خان کی زیر قیادت فیروزہ زہرہ، مسز رضیہ ملک، علیم احمد خان پر مشتمل ٹیم نے ریسکیو 15 سنٹر پر ویمن پولیس رپورٹنگ سنٹر اور نیو سینٹرل جیل کا بھی دورہ کیا اور قیدی خواتین میں ہائی جینک کٹس بھی تقسیم کیں، اس موقع پر ٹیم نے خواتین قیدیوں سے ان کے حالات اور انتظامیہ کے رویہ پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
بہاولپور میں منعقد ہونے والے اس سیمینار میں شرکاء کے خطاب اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق جنوبی پنجاب میں خواتین قیدیوں پر جسمانی اور جنسی تشدد کے واقعات ایک مسلم اور جمہوری ملک میں کسی صورت بھی قابل قبول نہیں، ہمارے مذہب اور معاشرے میں خواتین کا الگ مقام ہے، لیکن ریاستی اداروں کے اہلکار جنہیں ان کے جان و مال کے تحفظ کا فرض سونپا گیا ہے کی جانب سے لٹیروں کا کردار ادا کرنا انتہائی افسوسناک عمل ہے۔
اس ساری صورتحال میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ پولیس اور محکمہ جیل خانہ جات میں موجود مجرانہ حرکتوں کے مرتکب ہونے والے اہلکاروں کیخلاف فوری طور پر کارروائی کرے اور ان کیخلاف مقدمات کا اندراج کیا جائے اور اگر ان واقعات میں محکموں کے اعلٰی افسران ملوث ہیں تو انہیں بھی شامل تفتیش کیا جائے، اس حوالے سے خواتین پولیس سٹیشنز کا قیام بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے جبکہ جیلوں میں بھی مکمل طور پر خواتین عملہ تعینات ہونا چاہیئے، حوالات اور جیلوں میں شکایات سیل قائم کئے جائیں جہاں تشدد کے واقعات کی رپورٹ بلا کسی خوف درج کی ج اسکے اور سب سے اہم بات یہ کہ تھانہ کلچر کو تبدیل کرنا ہو گا، تاکہ پولیس کو حاکم کی بجائے عوام کا خادم بنایا جاسکے۔ 
خبر کا کوڈ : 107881
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش