رپورٹ: منظوم ولایتی
قلم کار اپنی قوم کا سفارت کار ہوتا ہے۔ کل رات برادر منظور حیدری کی اچانک کال آئی۔ مختصر علیک سلیک کے بعد فرمانے لگے کہ کافی دن ہوئے ابلاغِ عامہ کے احباب کے ساتھ کوئی نشست نہیں ہوئی۔ انہوں نے اگلے روز ساڑھے تین بجے موسّسہ باقر العلومؑ میں نشست کے انعقاد کا پیغام دیا۔ اگلے روز محترم بشیر دولتی صاحب اور محترم عارف بلتستانی وقت سے پہلے ہی پہنچے ہوئے تھے، ایسے میں استاد محترم نذر حافی صاحب قبلہ بھی پہنچے اور پھر باقی احباب بھی جمع ہوتے گئے۔ نشست کا آغاز تلاوتِ کلامِ الہیٰ سے ہوا، جس کی سعادت برادر تنویر مطہری صاحب نے حاصل کی۔ اِس کے بعد استاد محترم نذر حافی نے نئے دوستوں کو وائس آف نیشن اور شعبہ ابلاغِ عامہ کا تعارف کرایا اور قلمکار دوستوں سے کہا کہ دعا ہے کہ آج ساری دنیا ہی میڈیا کی دنیا میں تبدیل ہوچکی ہے۔
اس بدلتی دنیا میں کسی بھی مسئلے پر افراد کی اکثریت یا اقلیت کوئی معنی نہیں رکھتی، اب تعداد سے زیادہ مسائل کی درست نشاندہی، بہترین انداز سے مسائل کو بیان کرنا اور ان کا درست راہِ حل بتانا ضروری ہے۔ انہوں نے اس موقع پر تفتان اور ریمدان پر زائرین کو درپیش مشکلات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان تمام شخصیات، تنظیموں اور احباب کا شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے ان مسائل کو حل کرنے کی کوششیں کیں۔ نشست میں موجود دیگر احباب نے بھی اپنی قلمی و علمی فعالیتوں پر تبادلہ خیال کیا اور پاکستان میں جاری حالات پر اپنے نکتہ نظر سے ایک دوسرے کو آگاہ کیا۔ حاضرین نے جہاں ناموسِ صحابہ بِل کے ایشو پر تشویش کا اظہار کیا، وہیں گلگت بلتستان میں حالیہ شیعہ سنی کشیدگی کو بھی ملک کیلئے زہرِ قاتل قرار دیا۔ حاضرین نے تکفیری عناصر کی طرف سے لوگوں پر توہین مذہب کے من گھڑت الزامات لگانے اور جھوٹی ایف آئی آرز کٹوانے کے سلسلے کو رکوانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
نشست کا ایک سیشن پاکستان کو درپیش خطرات اور صاحبانِ قلم کے کردار پر مبنی تھا۔ اس دوران راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں کہا کہ حالیہ دنوں میں رہبر انقلاب ِ اسلامی نے سیستان و بلوچستان کے ایک سرکردہ وفد سے خطاب کرتے فرمایا ہے کہ استکبار تین چیزوں کو مسلم دنیا کے اندر اختلافات اور انتشارات کا ذریعہ بناتا ہے:
1۔ قوم؛ جیسے بلوچی، پنجابی، بلتی، گلگتی وغیرہ۔ 2۔ دوسری چیز مسلک و مکتب؛ جیسے شیعہ سنی 3۔ تیسری چیز حقوق نسواں مثلاً "زن، زندگی، آزادی" جیسے جھوٹے نعرے۔ ہمیں ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہیئے کہ کہیں دشمن اپنے مذموم و استکباری عزائم میں کامیاب نہ ہو۔ میں نے اپنی گفتگو کو حضرت شاعر مشرق کے اس شعر کے ساتھ ختم کیا۔
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش
اے گرفتارِ ابوبکرؓ و علیؓ ہشیار باش
آخر میں اوطنِ عزیز کی سلامتی اور ترقی کی دعا کے ساتھ نشست کا اختتام ہوا اور سب نے یہ عہد کیا کہ معاشرے میں دینی تعلیمات کے مطابق اپنی زبان و قلم سے نفرتوں کے بجائے محبتوں کو فروغ دیں گے۔ جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ قلم کار اپنی قوم کا سفارت کار ہوتا ہے۔ اس نشست میں مجھے محسوس ہوا کہ ہاں واقعی قلمکار بہت حساس مزاج کے ہوتے ہیں، وہ جہاں بھی ہوں، اپنے ملک اور قوم سے غافل نہیں رہتے۔ یہی اچھے اور کامیاب سفارتکاروں کی نشانی ہے۔