0
Monday 24 Oct 2011 17:58

امریکہ یا بھارت نے پاکستان کیخلاف جارحیت کی حماقت کی تو دنیا کو ویتنام بھلا دیں گے،دفاع وطن کانفرنس

امریکہ یا بھارت نے پاکستان کیخلاف جارحیت کی حماقت کی تو دنیا کو ویتنام بھلا دیں گے،دفاع وطن کانفرنس
لاہور:اسلام ٹائمز۔ دفاع پاکستان کونسل کے زیراہتمام دفاع پاکستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا ہے کہ پاکستان ہمیں جان سے بھی عزیز تر ہے، اس کے دفاع کے لئے تن من دھن سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہیں، پاکستان کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ کل جماعتی کانفرنس برائے دفاع پاکستان میں خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق نے کہا کہ آج کے اجتماع کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کی آزادی اور تحفظ ہے، اس لئے اس میں صرف پاکستان کی بقاء، وجود، سلامتی اور استحکام کی بات ہو گی، ملک کی داخلی سیاست اور اپنے ہر قسم کے سیاسی اور مذہبی لسانی اور جماعتی گروہی تحفظات سے اسے دور رکھا جائے گا اور الحمدللہ یہ اس لحاظ سے ہماری تاریخ کا منفرد اجلاس ہے، جس میں تمام مسالک، تمام مکاتب فکر اور دائیں بائیں سیکولر، لبرل اور مذہبی و لامذہبی کی سیاسی تقسیم سے ماوراء تمام پارٹیاں شرکت کر رہی ہیں اور ایک خودمختار ملک کے خوددار اور محب وطن شہریوں کی حیثیت سے اس میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے پاکستانی بھائیوں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے، کیونکہ پاکستان ہم سب کیلئے یکساں شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے، ہماری داخلی سیاست کا دارومدار بھی پاکستان کے وجود اور اس کے دفاع پر ہے، اس لئے آج سیاست پر کسی قسم کی بات نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا ہمیں مشورہ کرنا ہے کہ دشمن ہمیں ہر طرف سے للکار رہا ہے، ہمارے ایٹمی اثاثے خطرہ میں ہیں اور ہماری آزاد سرزمین کو روند ڈالنے کی باتیں ہو رہی ہیں، اس کا سامنا کیسے کیا جائے؟ انہوں نے کہا کہ قوم بے چینی کے اس عالم میں آپ پر نظریں لگائے ہوئے ہے، اس لئے کہ ملک کی مقتدر قوتوں نے انہیں مایوس کیا ہے،
 جے یو آئی س کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے بحث و تمحیص کے بعد 22 اکتوبر 2008 ء کو متفقہ قرار دارد پاس کی جس میں ڈرون حملوں کی بندش پالیسی پر نظرثانی اور ڈائیلاگ کی بات کی گئی تھی، مگر اس پر حکومت وقت عملدرآمد نہ کرا سکی، پھر 14 مئی 2011ء کو سانحہ ایبٹ آباد کے بعد مزید شدومد سے واضح قرارداد آئی، جس میں بیرونی جارحیت، ڈرون حملوں، نیٹو کی سپلائی پر تشویش و اضطراب کا اظہار ہوا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کے طلب کردہ 12 ستمبر 2011ء کو آل پارٹیز کانفرنس نے بھی سابقہ قراردادوں کے تناظر میں اس کی تنفیذ اور عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کیا اور طالبان و دیگر مزاحمتی قوتوں سے مذاکرات کی بات کی گئی، مگر آج ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ حکومت کو قوم اور پارلیمنٹ کے ان متفقہ قرادادوں اور فیصلوں پر عمل کرانے میں کیا مجبوریاں ہیں؟ آج ہمیں مل بیٹھ کر سوچنا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی شکست کے بعد ہمیں افغانستان کے مضر اثرات سے کیسے بچنا ہے؟ اور فوائد کو کیسے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔؟
انہوں نے کہا اس وقت عالم اسلام کو دنیا کے مختلف حصوں میں جس قدر مشکلات، خلفشار اور مسائل و مصائب کا سامنا ہے انکو سامنے رکھا جائے تو ان سب کے پیچھے ایک قدر مشترک کے طور پر دکھائی دیتی ہے کہ امریکی استعمار اور اسکے حواری طے شدہ منصوبے اور منظم پروگرام کے تحت امت مسلمہ کو استعماری شکنجے میں جکڑے رکھنے اور اس کو اپنے وسائل اور صلاحیتوں سے محروم کر کے مستقل غلامی کے جال میں قابو کرنے کیلئے اپنی تمام تر قوتوں، وسائل اور توانائیوں کو وقف کر چکے ہیں، دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے مسلم ملک انڈونیشا کے روز افزوں خلفشار کا مسئلہ ہو یا سوڈان اور فلسطین کا، مشرق وسطٰی میں عربوں سے تیل کی دولت طاقت کے زور سے ہتھیا لینے کی بات ہو یا جنوبی ایشیا میں پاکستان کو اس کے نظریاتی تشخص، ایٹمی توانائی اور عسکری قوت سے محروم کر دینے کی تگ و دو ہو، یا دنیا میں اپنی آزادی کے لئے مزاحمتی جدوجہد کرنے والوں کو بے دست و پا کر کے امریکی عزائم کے سامنے جھکا دینے کی مذموم مہم ہو، ان سب کے پیچھے سامراجی طاقتیں اپنی پوری شیطانی قوت کے ساتھ رقصاں دکھائی دیتی ہیں اور اقوام متحدہ اور مغربی ممالک امریکہ کے بے دام غلام کی طرح اس کے مکمل آلہ کار کا روپ دھار چکے ہیں۔
کانفرنس کی میزبانی جنرل ریٹائرڈ حمید کل اور مولانا سمیع الحق نے کی جب کہ دیگر مقررین میں منور حسن، شیخ رشید، حافظ محمد سعید، ڈاکٹر ابوالخیر زبیر، پروفیسر ساجد میر، ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان، اعجاز الحق، سلیم سیف اللہ، مولانا سلیم اللہ خان، مجید نظامی، قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مدنی بلوچ، سابق سیکرٹری شمشاد احمد، مولانا امیر حمزہ، ڈاکٹر عاکف سعید، قاری زوار بہادر، مفتی محمد خان قادری، ڈاکٹر رفیق احمد، جنرل (ر) فیض علی چشتی، جنرل (ر) اسد درانی، مولانا عصمت اللہ، مولانا پیر سیف اللہ خالد، علامہ محمد راغب نعیمی، مولانا فضل الرحمن خلیل، مولانا مفتی عبدالرحیم، مولانا محمد اکرم اعوان، مولانا عطاء المہیمن، سید کفیل شاہ بخاری، مولانا فضل الرحیم، غلام احمد بلور، حافظ طاہر محمود اشرفی، مولانا فداء الرحمن درخواستی، مولانا زاہد الراشدی، مولانا عبدالغفار تونسوی، قاری محمد یعقوب شیخ، مولانا اسفند یار خان، منیر اورکزئی، مفتی حبیب الرحمن درخواستی، مولانا زر ولی خان، قاضی نیاز حسین نقوی، مولانا محمد طیب پنج پیری، پیر نقیب الرحمن،پیر شمس الدین، جنرل (ر) محمد شفیق،لارڈ بشپ الیگزینڈر جان ملک، پاسٹل ابراہیم ڈینئل، اکرام سہگل، مصطفٰی صادق، خواجہ محمد اسلم، آغا فیصل، معظم بٹ، بریگیڈیئر محمود احمد، عبداللہ گل، سردار شام سنگھ، ڈاکٹر دارا حرموز و دیگر شامل تھے۔ 
مقررین نے اپنے اپنے خطاب میں کہا کہ ہماری افغان پالیسی کو کچھ لوگ غلط سمجھتے ہیں، جس کا ہمیں دکھ ہے، بغیر دیکھے تنقید کرتے ہیں، انہیں چاہیے کہ پہلے ہمارے ساتھ بیٹھ کر دیکھ تو لیں کہ ہماری افغان پالیسی ہے کیا، اس کے بعد کھل کر تنقید کریں، انہوں نے کہا کہ افغانستان کے شمالی اتحاد گروپ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ ہیں۔ اسی گروہ کا تعلق ریمنڈ ڈیوس کے نیٹ ورک سے ہے اور ان کی جڑیں پاکستان میں بھی ہیں، ہم سکیورٹی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کا سدبات کریں اور ان گروہوں کا افغانستان اور پاکستان دونوں جگہوں سے خاتمہ کریں۔ 
مقررین نے کہا کہ فوج اور سول حکومت کو مل کر ملک کا دفاع کرنا چاہیے اور دفاع پاکستان کے ایجنڈے کو فروغ دینا چاہیے۔ مقررین نے کہا کہ اب افغانستان میں امریکی شکست کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالی جا رہی ہے، میڈیا اور امریکی تھنک ٹینک سارا زور اس بات پر لگا رہے ہیں کہ پاکستان کو اس شکست کا ذمہ دار بنا دیا جائے۔ امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اور شکست کی اس کالک کو اپنے منہ کی بجائے پاکستان پر ملنا چاہتا ہے، امریکی برملا کہتے ہیں کہ ڈرون حملوں کی اجازت پاکستان نے خود دے رکھی ہے، ڈرون حملوں کی اجازت کس نے دی، سارے خودکش حملے اور دہشت گردی کے واقعات انہی ڈرون حملوں کا نتیجہ ہیں۔ امریکہ پاکستان کیخلاف خوفناک عزائم رکھتا ہے، لیکن اگر ہم ملک کی بقا چاہتے ہیں تو امت کو متحد ہونا ہو گا۔
مقررین نے کہا کہ امریکہ پاکستان کیخلاف جو کچھ کرنا چاہتا ہے وہ بھارت کو اکسا کر کرئے گا۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا خبروں میں دیکھ رہے ہوں گے کہ بھارت نے اپنی فوجیں ہماری سرحدوں کے نزدیک لانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، یہاں تک کہ فضائیہ کو بھی ڈپلائے کیا جا رہا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت کے عزائم ناپاک ہیں۔ مقررین نے کہا کہ دفاع کے لئے جنگ فوج نہیں لڑا کرتی بلکہ قوموں کا جذبہ اہم ہوتا ہے، اگر فوج کی پشت پر قوم ہو گی تو فوج لڑ سکے گی، ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ اکیلی فوج نہیں لڑ سکتی۔ فوج کو مضبوط کرنے کے لئے قوم کو اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
 مقررین نے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی بھی مذمت کی اور کہا کہ ہمیں تجارت کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، بھارت کے حوالے سے ہم کہتے تھے کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا، تب تک کسی بھی ایشو پر بھارت سے بات نہیں کی جائے گی، لیکن پرویز مشرف کے دور میں ہم نے یہ نعرے بھی ختم کر دیا، اب بھارت کے پیاز، لہسن، ادرک اور مرچیں کھا رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ جو اس تجارت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں انہیں کوئی غرض نہیں کشمیر سے بھی اور ملک سے بھی، ایسے لوگوں کا ناطقہ بھی بند کرنے کی ضرورت ہے۔
مقررین نے کہا کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں پاک فوج اور آئی ایس آئی کے ساتھ ہے، لیکن کیا فوج قوم کے ساتھ ہے؟ امریکا وزیرستان، وانا یا ملک کے کسی بھی علاقے میں قدم تو رکھ کر دیکھے قوم اسے ویتنام بھلا دے گی۔ قوم اپنے دفاع کے لئے متحد ہے اور اگر بھارت نے پاکستان کیخلاف کسی قسم کی جارحیت کی کوشش کی تو بھارت کے اندر کئی پاکستان بن جائیں گے۔ مقررین نے کہا کہ ہمیں ایک بلاک کی ضرورت ہے اور وہ بلاک ہم چین، ترکی، ایران اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر تشکیل دے سکتے ہیں۔ اگر اس طرح بلاک بن گیا تو دنیا کی کوئی طاقت بلاک میں شامل کسی بھی ملک کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گی۔ مقررین نے کہا کہ اگر موجودہ حکومت سے جان چھوٹ گئی تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 108880
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش