0
Tuesday 1 Sep 2009 11:40

پاکستان کو مطلوب ٹاپ ٹین دہشت گردوں میں فضل اللہ سر فہرست

پاکستان کو مطلوب ٹاپ ٹین دہشت گردوں میں فضل اللہ سر فہرست
لاہور:امریکی ڈرون حملے میں سب سے زیادہ مطلوب بیت اللہ محسود کی ہلاکت سے قبائلی علاقے میں جاری پاک فوج کے آپریشن کو کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اب بھی وہاں بہت سے شدت پسند جنگجو ہاتھوں میں بندوقیں لئے اور ذہنوں پر جہاد سوار کئے اپنے جہادی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ اسلام آباد میں وزارت داخلہ کے اعلیٰ ذرائع کے مطابق پاکستان کو مطلوب ٹاپ ٹین دہشتگردوں کا تعلق القاعدہ،طالبان اور فرقہ پرست 6 تنظیموں سے ہے۔ 4 تحریک طالبان پاکستان، 2 لشکر جھنگوی اور ایک ایک تحریک نفاذ شریعت محمدی،جیش محمد،حرکت الجہاد الاسلامی اور لشکر اسلامی سے وابستہ ہیں۔ ان میں تحریک نفاذ شریعت محمدی سوات کا علامتی امیر مولانا فضل اللہ، تحریک طالبان پاکستان کے حکیم اللہ محسود، قاری حسین محسود، مولوی فقیر محمد اور ولی الرحمن، لشکر جھنگوی کے مطیع الرحمن اور قاری ظفر، حرکتہ الجہاد الاسلامی کا مولانا الیاس کشمیری، جیش محمد کا راشد رؤف اور لشکر اسلامی کا منگل باغ شامل ہیں۔ امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونیوالے بیت اللہ محسود کے بعد مولانا فضل اللہ مطلوب دہشت گرد نمبر ون ہے، اُس نے سوات میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا، درجنوں اہلکاروں کو خودکش دھماکوں میں شہید کیا، وہ نفاذ شریعت محمدی کے بانی مولانا صوفی محمد کا داماد ہے، جو یکم مارچ 1975ء کو پیدا ہوا، غیر قانونی ایف ایم ریڈیو پر اپنی باغیانہ تقریروں،سوات میں لوگوں کو شریعت پر کاربند رہنے اور جہاد میں شامل کرنے کیلئے سنگین دھمکیاں دینے کے باعث"ملا ریڈیو"کے نام سے مشہور ہے۔ وہ صوفی محمد اور حکومت کے درمیان امن معاہدے کے خاتمے کے نتیجے میں جہادی انفراسٹرکچر کے خاتمے کیلئے اپریل 2009ء میں شروع کئے جانیوالے فوجی آپریشن کے آغاز سے لاپتہ ہے، اگرچہ پاکستان آرمی نے سوات کا کنٹرول سنبھال لیا ہے تاہم فضل اللہ مفرور ہے، اُس کے سر کی قیمت 50 لاکھ مقرر ہے۔ بیت اللہ محسود کا معتمد خاص حکیم اللہ محسود تحریک طالبان پاکستان کا نیا امیر،مطلوب افراد کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے، وہ 1980ء میں پیدا ہوا وہ فاٹا کی اورکزئی،خیبر اور کرم ایجنسی کے علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کرتا تھا،حکیم اللہ جو ذوالفقار محسود عرف گڈو کے نام سے بھی مشہور ہے، پشاور اور خیبر میں نیٹو سپلائی کیخلاف کارروائیوں کی قیادت بھی کر چکا ہے، اُس کی زیر قیادت کارروائیوں میں نیٹو کی 600 سے زائد گاڑیاں اور شپنگ کنٹینرز تباہ ہوئے، اُس نے مارچ 2009ء میں مناواں پولیس اکیڈمی پر حملے سمیت پشاور اور لاہور میں کئی خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد فائرنگ میں حکیم اللہ کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا مگر وہ ابھی زندہ ہے۔ بیت اللہ کا قریبی معاون قاری حسین انتہائی مطلوب کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ وہ جنوبی وزیرستان میں تحریک طالبان کا اہم ترین کمانڈر ہے اور اُستادِ فدائین کے طور پر مشہور ہے، وہ خودکش حملوں کیلئے تیار کئے جانیوالے بچوں کے تربیتی کیمپ چلاتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں بچوں کو جہاد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ سپنکئی کے علاقے کے ایک کیمپ کی ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے جو کہ اُس نے بذات خود جاری کی تھی، ویڈیو میں 2 بڑے خودکش حملوں کا دعویٰ کیا گیا ہے،جن میں ایک 21 مارچ 2008ء کو ایف آئی اے بلڈنگ لاہور پر کیا گیا اور دو 24 نومبر 2007ء کو راولپنڈی میں آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کے سامنے ایک ساتھ کئے گئے۔ پاک فوج نے حسین کی خودکش نرسری جنوری 2008ء میں تباہ کر دی اور دعویٰ کیا کہ قاری حسین بھی مارا گیا ہے لیکن ایک ہفتہ بعد ہی اُس نے پریس کانفرنس میں یہ کہتے ہوئے مذاق اُڑایا کہ ”میں زندہ ہوں کیا میں تمہیں دکھائی دیتا ہوں؟“۔ اہم ترین مطلوب کی فہرست میں چوتھے نمبر پر القاعدہ سے تعلق رکھنے والی آزاد کشمیر کی جہادی تنظیم حرکتہ الجہاد اسلامی کا کمانڈر الیاس کشمیری ہے جس نے برسوں بھارتی جیل میں گزارے، اُسے 2003ء میں مشرف کے صدارتی قافلے پر ایک ساتھ دو خودکش حملوں کے بعد گرفتار کیا گیا مگر چند ہفتوں بعد عدم ثبوت کی بنا پر چھوڑ دیا گیا۔ اُس نے بعد ازاں اپنا ٹھکانہ جنوبی وزیرستان منتقل کر لیا اور بیت اللہ محسود سے ہاتھ ملا لئے، پھر اُس نے وزیرستان میں رزمک کے علاقے میں اپنا تربیتی کیمپ قائم کیا اور اپنے زیادہ تر جنگجو اپنے کوٹلی آزاد کشمیر کے کیمپ سے منتقل کر لئے، اسلام آباد پولیس نے نومبر 2008ء میں سپیشل سروسز گروپ کے سابق جی او سی میجر جنرل (ر) امیر فیصل علوی کی شہادت پر اُس کا نام ماسٹر مائنڈ کے طور پر فائل کیا تھا۔پانچویں نمبر پر مبینہ طور پر القاعدہ سے تعلق رکھنے والا پاکستانی نژاد برطانوی شہری راشد رؤف ہے جو پاکستان اور برطانیہ کو امریکی طیارے تباہ کرنے کی اگست 2006ء میں کی جانے والی سازش کا مرکزی کردار ہونے کے باعث مطلوب ہے جیش محمد کے چیف مولانا مسعود اظہر کے قریبی عزیز راشد پر دہشت گردی کے کئی سیل بنانے کا الزام ہے جس میں سے ہر ایک میں 12 دہشت گرد تھے جن کو پاکستان کے قبائلی علاقے سے یورپ کے کئی شہروں میں بم حملوں کے لئے بھیجا گیا راشد کا 22 نومبر 2008ء میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کے گاؤں علی خیل میں ہلاک ہونا بتایا گیا مگر بعد میں سامنے آیا کہ وہ زندہ ہے وزیرستان ریجن سے کارروائیاں کر رہا ہے۔ چھٹے نمبر پر خیبر ایجنسی میں ایک اسلامی جنگجو گروپ چلانے والا لشکر اسلام کا بانی منگل باغ آفریدی ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ اصلاحی تنظیم ہے جو نیکی کو فروغ دیتی اور برائی سے روکتی ہے وہ خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں 1973ء میں پیدا ہوا وہ ایک بس کنڈیکٹر تھا جو اب اپنے نجی ایف ایم ریڈیو سٹیشن پر انتہا پسندی پھیلاتا ہے اگر مان لیا جائے کہ اس کے لشکر اسلام میں 120,000 مسلح افراد ہیں جو خیبر ایجنسی کے مختلف علاقوں کو کنٹرول کرتے ہیں اس کو پہلے ہی حملہ آور ڈیکلیئر کیا جا چکا ہے جس نے میہم اور پلیج میں خونریزی کی اس کے آدمیوں نے 2009ء کے آغاز میں پشاور کے قریب ایک گاؤں میں غیر مسلح دیہاتیوں پر حملہ کیا اور درجنوں کو قتل کر دیا۔ 1977ء میں پیدا ہونے والا لشکر جھنگوی کا سربراہ مطیع الرحمان عرف صمد سیال ساتویں نمبر پر ہے وہ ایک پاکستانی شہری ہے مگر القاعدہ کے پلاننگ ڈائریکٹر کے طور پر جانا جاتا ہے ایف بی آئی اور سی آئی اے دونوں کو مطلوب ہے اور انتہائی ماہر بم ساز کے طور پر مشہور ہے اس کا تعلق پنجاب کے ضلع بہاولپور سے ہے اور پاکستانی حکومت نے اس کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کر رکھی ہے وہ برطانیہ میں طیارے تباہ کرنے کی سازش کے علاوہ ستمبر 2008ء میں میریٹ ہوٹل اسلام آباد پر خودکش حملے میں ملوث بتایا جاتا ہے۔ مطیع الرحمان کو پاکستان کی جہادی کمیونٹی اور القاعدہ میں رابطوں کے باعث انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ باجوڑ ایجنسی میں 1970ء میں پیدا ہونے والا مہمند قبیلے کا فرد اور تحریک طالبان کا ڈپٹی چیف مولوی فقیر محمد انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ باقاعدہ طور پر صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی سے وابستہ فقیر محمد طالبان اور القاعدہ جنگجوؤں سے تعلقات کے باعث مطلوب ہے فقیر کھلے عام کہہ چکا ہے کہ اس کے اسامہ کے نائب ڈاکٹر ایمن الظواہری سے تعلقات ہیں،بیت اللہ کی ہلاکت کے بعد اس نے عارضی طور پر تحریک طالبان کی قیادت سنبھالنے کا اعلان کیا تھا مگر بعدازاں اعلان کیا تھا کہ حکیم اللہ محسود کو تحریک طالبان پاکستان کا قائد مقرر کر لیا گیا ہے اس پر 8 نومبر 2006ء کو صوبہ سرحد کے تربیتی مرکز درگئی میں فوج پر خودکش حملے کا منصوبہ بنانے کا الزام ہے جس میں پنجاب رجمنٹ سنٹر کے 45 ریکروٹس کو شہید ہو گئے تھے۔ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد جنوبی وزیرستان میں طالبان کے اہم کمانڈر کے طور پر ابھرنے والا ولی الرحمان موسٹ وانٹڈ کی فہرست میں 9 ویں نمبر پر آتا ہے وہ 1974ء میں پیدا ہوا ولی الرحمان ایک مولوی ہے جس نے فیصل آباد کے ایک مدرسے جامعہ اسلامیہ امدادیہ میں تعلیم حاصل کی جس کے بعد 7 برس تک ساؤتھ وزیرستان کے ایک مدرسے میں پڑھاتا رہا اس نے 2004ء میں تحریک طالبان میں شمولیت اختیار کی اور بیت اللہ محسود کا بااعتماد ساتھی بن گیا وہ تحریک طالبان کے مالی معاملات کی نگرانی کرتا تھا وہ اپنی زندگی ہی میں ایک وقت مولانا فضل کی جے یو آئی سے بھی وابستہ رہا اور پرامن سیاست میں حصہ لیا بیت اللہ محسودد کے طالبان کے سربراہ ہونے کے دوران اور اس کے طالبان سربراہ کے طور پر تقرر میں ولی بہت اہم تھا جس نے اس کو جنوبی وزیرستان کی تنظیم میں بہت اہم بنا دیا۔ دسویں نمبر پر قاری محمد ظفر ہے جس کو لشکر جھنگوی کا قائم مقام امیر سمجھا جاتا ہے اور پاکستان میں خودکش حملوں کا سکواڈ چلاتا ہے اب ساؤتھ وزیرستان سے کارروائیاں کرتا ہے ظفر ستمبر 2008ء میں میریٹ ہوٹل پر حملوں کا ماسٹر مائنڈ بتایا جاتا ہے کراچی سے تعلق رکھنے والا ظفر پاکستان میں القاعدہ کے اندرونی سرکل کا رکن بھی بتایا جاتا ہے۔ اسے تحریک طالبان کا تحفظ حاصل ہے،2007ء میں لاہور میں سکیورٹی سروسز کی حراست سے فرار ہوا وہ کراچی میں امریکی قونصلیٹ پر 2 مارچ 2006ء کو ہونے والے کار بم دھماکے میں بھی مطلوب ہے۔
خبر کا کوڈ : 10897
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش