0
Friday 4 Nov 2011 21:15

عراق جنگ میں اصلی ہار اوباما کو ہوئی، معروف امریکی تجزیہ کار

عراق جنگ میں اصلی ہار اوباما کو ہوئی، معروف امریکی تجزیہ کار
اسلام ٹائمز- فارس نیوز ایجنسی کے مطابق عراق کے معروف سیاسی ماہر اور صحافی جناب چارلز کراوتھیمر (Charles Krauthammer) نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ عراق جنگ میں سب سے بڑی اور حقیقی ہار امریکی صدر براک اوباما کو ہوئی۔ انہوں نے اس رپورٹ میں تاکید کی کہ جب براک اوباما نے منصب صدارت سنبھالا تو امریکہ عراق میں تقریبا کامیابی سے ہمکنار ہو چکا تھا اور جو اہم ہدف اس کے سامنے تھا وہ اپنی افواج کو کسی بھی طرح وہاں پر باقی رکھنا تھا تاکہ جنگ کے ذریعے حاصل کئے گئے مفادات کی حفاظت کی جا سکے اور عالم عرب میں رونما ہونے والے پہلے جمہوری نظام میں اپنا اثر و رسوخ قائم کیا جا سکے۔
جناب چارلز کراوتھیمر نے کہا کہ صدر براک اوباما اس مقصد کو حاصل کرنے میں بری طرح ناکامی کا شکار ہو گئے۔ ایک ماہ قبل انجام پانے والے مذاکرات ایسے وقت ناکام ہو گئے جب نہ ہی کسی معاہدے کی امید باقی رہی اور نہ ہی کسی مشارکت اور تعاون کی۔ 31 دسمبر 2011 کا دن آتے ہی عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔
معروف امریکی تجزیہ کار اور صحافی کا کہنا تھا کہ چونکہ صدر اوباما کے پاس عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کی مدت بڑھانے کیلئے کسی نئے معاہدے کی برقراری کیلئے تقریبا تین سال کا وقت موجود تھا لہذا 2008 میں انجام پانے والے بغداد-واشنگٹن سیکورٹی معاہدے پر بات چیت انجام پانی چاہئے تھی لیکن اسکے بارے میں مذاکرات بھی اسی طرح ناکامی کا شکار ہو گئے جس طرح امریکہ کے حامی اتحاد بنانے کیلئے ہونے والے مذاکرات ناکام ہوئے۔
چارلز کراوتھیمر نے تاکید کی کہ صدر براک اوباما کی یہ ناکامی اس بات کا باعث بنی کہ وہ تمام قوتیں بھی سخت مشکلات کا شکار ہو جائیں جو عراق میں ایران کے نفوذ اور اثر و رسوخ کے خلاف امریکی موقف کا دفاع کرنے میں مصروف تھیں۔ عراق کے کرد رہنما جناب مسعود بارزانی کا دورہ ایران بھی عراق میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ طے نہیں تھا حالات یہ رخ اختیار کریں اور عراق میں ہمارے حامی اور دوست ایران کے مقابلے میں بے بس ہو جائیں۔ تین سال کی مہلت اور ایسی جنگ جو تقریبا کامیابی سے ہمکنار ہو چکی تھی صدر اوباما کو یہ موقع فراہم کر چکی تھی کہ وہ آج والے حالات پیدا نہ ہونے دیں۔ چارلز کراوتھیمر نے زور دے کر کہا کہ صدر اوباما کا عراق میں قتل ہونے والے امریکی فوجیوں کے خون کے مقابلے میں یہ وظیفہ بنتا تھا کہ وہ اس ملک میں حاصل ہونے والے امریکی مفادات کی حفاظت کرتے لیکن امریکی صدر عراق میں "ذہین طاقت" سے صحیح طور پر استفادہ نہیں کر سکے۔
یاد رہے بغداد اور واشنگٹن میں طے پائے سیکورٹی معاہدے کی رو سے امریکی فوجی اس سال کے آخر تک عراق سے مکمل انخلاء کے پابند ہیں۔ عراق سے انخلاء کا امریکی فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب عراقی حکومت نے امریکی فوجیوں کو عدالتی استثناء دینے سے انکار کر دیا۔
خبر کا کوڈ : 111696
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش