0
Sunday 13 Nov 2011 21:13

پاک ایران معاہدوں کا غیرمتوقع حشر، کیا امریکی وزیرِ خارجہ کی کرشمہ ساز شخصیت کے زیرِ اثر ہُوا؟

پاک ایران معاہدوں کا غیرمتوقع حشر، کیا امریکی وزیرِ خارجہ کی کرشمہ ساز شخصیت کے زیرِ اثر ہُوا؟
اسلام ٹائمز۔ بیشتر مسلم ممالک کی یہ بڑی بدنصیبی اور بدبختی رہی ہے کہ انہوں نے اپنی پالیسیوں اور قومی سطح کے فیصلوں میں اغیار کو (کہ جن کی اکثریت اسلام دشمنی کے مخفی جذبات رکھتی ہے) ہمیشہ سے دخیل رکھا ہے۔ ان کی بیشتر پالیسیاں دیگر ممالک میں تشکیل پاتی ہیں، جن میں امریکہ سرفہرست ہے۔ پاکستان انہی بدقسمت ممالک میں سے ایک ہے جس پر کبھی فوجی آمریت اور کبھی جمہوریت کے پردے میں غلامانہ ذہنیت کے حامل حکمران مسلط رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے مقاصد کو بہت بری طرح پامال کیا جاتا رہا ہے، جسکی بناء پر یہ احساس اختیارات سے تہی درد مند حلقوں میں شدت سے پایا جاتا ہے کہ ہم نے ظاہری آزادی حاصل کر کے انگریز اور ہندو سے تو نجات پالی، لیکن بابائے قوم رہ کے بعد آنے والی الاماشااللہ تمام قیادتوں نے ملک کو امریکی غلامی میں جھونکنے میں سیاہ کردار ادا دیا، جس کا آغاز شہید ملت کہلوانے والے سب سے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے عہد میں ہوا۔ جنہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد 1952ء میں امریکہ کا دورہ فرمایا اور یوں پاکستان میں امریکی بالادستی اور دراندازی کا آغاز ہو گیا۔ 
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھ دی گئی جس کا نتیجہ امریکہ جیسے مسلمہ اسلام دشمن، بے مروت اور بد لحاظ ملک کی نام نہاد دوستی کی شکل میں قوم کو بھگتنا پڑا ہے۔ مطلب نکلنے اور پاکستان کو مصائب و مشکلات کے بھنور میں دھکیلنے کے بعد طوطے کی مانند آنکھیں پھیر لینے والے آقا کا سحر کسی بھی مرحلے پر ٹوٹ نہ سکا۔ ڈالروں کے لالچی حکمران بار بار اس کے اسیر بنتے اور قومی غیرت و حمیت کو لہولہان کرتے رہے، جس کا تازہ مظہر امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے حالیہ دورہ ایران کے بعد پاک ایران بنتے تعلقات میں رخنے کی صورت میں سامنے آیا۔ جس کا ایک فکر انگیز جائزہ اختصار سے درجِ ذیل سطور میں پیش کیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ ایران کے موقع پر کئے گئے اہم فیصلے:
وزیراعظم پاکستان نے 11 تا 13 ستمبر 2011ء کو ایران کا سرکاری دورہ کیا، جس میں مندرجہ ذیل اہم فیصلے کیے گئے۔
1۔ دونوں ممالک میں یہ طے پایا کہ باہمی اشتراک سے شروع کیے گیے ترقیاتی منصوبوں کی بر وقت تکمیل کی غرض سے جامع منصوبہ بندی اور حکمت عملی اختیار کی جائے، تاکہ دونوں برادر اسلامی ممالک کے باہمی تجارتی و معاشی روابط ترقی و جدت کی منازل طے کر سکیں۔ اس کے علاوہ زمینی رابطے اور مواصلات کے نظام جیسے ریل اور پختہ سڑک کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے، تاکہ باہمی تعاون میں مزید بہتری لائی جائے اور اس ترقی کے ثمرات دونوں ممالک کے عوام کو پہنچنا شروع ہوں۔
2۔ دونوں ممالک میں اس نقطے پر بھی اتفاق پایا گیا کہ دہشت گردی اور منشیات کے انسداد کے لیے ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے اور بین الاقوامی سرحد پر ایسا موثر نظام موجود ہو، جس سے ان دونوں معاشرتی برائیوں پر قابو پایا جائے۔
3۔ دونوں ممالک نے بجلی گیس اور تیل کے شعبوں میں باہمی اشتراک اور زیر تکمیل منصوبوں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا اور اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ان تین شعبوں کے سلسلے میں جو بھی معاہدے کیے گیے ہیں ان پر خوش اسلوبی سے عمل درآمد کیا جائے، تاکہ ان منصوبوں کی بر وقت تکمیل ہو سکے۔
4۔ ملاقات میں بینکنگ کے شعبے پر بھی بات کی گئی اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو مزید فروغ حاصل ہو گا اگر بینک اپنا کردار ادا کریں اور تجارت پیشہ افراد اور سرمایہ کاروں کو مالی معاونت فراہم کریں۔ 
5۔ دوطرفہ ملاقات میں یہ بھی طے پایا کہ ایران پاکستان مشترکہ سرمایہ کاری کمپنی کے قیام سے بھرپور فائدہ حاصل کیا جائے، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارتی اور معاشی تعاون کو مزید فروغ حاصل ہو گا اور دیگر شعبہ جات میں بھی باہمی تعاون کیا جا سکے گا۔
6۔ سیاحت اور ثقافتی تعاون کو فروغ دینے پر بھی غور کیا گیا۔
7۔ طب اور سائنسی اور تکنیکی شعبوں میں بھی دو طرفہ تعاون پر بھی اتفاق ہوا۔

لیکن اب محسوس یہ کیا جا رہا ہے کہ ان فیصلوں میں ایک ان دیکھی رکاوٹ در آئی ہے۔ کیا اسے محض اتفاق سمجھا جائے کہ ایسا کچھ امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن کے حالیہ دورۂ پاکستان کے بعد ہوا ہے کہ پاک ایران حوصلہ افزا پیش رفت میں ایک پُراسرار خاموشی اور سردمہری کی سی کیفیت طاری ہو گئی ہے۔؟ پاک ایران برادرانہ تعلقات کو مستحکم ہوتا دیکھنے کے خواہاں حلقوں میں تشویش جن وجوہ کی بنا پر پائی جا رہی ہے ان میں پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ سرد خانے میں ڈال دینے کے علاوہ بجلی کی درآمد کا منصوبہ یہ کہہ کر ختم کر دیا گیا کہ اب بجلی ایران کے بجائے بھارت سے اس بنا پر درآمد کی جائے گی کہ وہ ایران کے مقابلے میں سستی مِل رہی ہے۔ طے شدہ معاہدوں کے اس حشر کا انجام کسی اچنبہے سے کم نہیں۔
پاک ایران مشترکہ منصوبوں میں درکار پیشرفت:
1۔ نیسپاک نے ایران سے 1000MW  بجلی درآمد کرنے کے منصوبے پر مشتمل مجوزہ رپورٹ اگست 2010ء میں ایران کو ارسال کر دی۔ مالی و اقتصادی نظرثانی شدہ ضمنی رپورٹ بھی منظوری کے لیے بھیج دی گئی۔ اس سلسلے میں ایران سے گزارش کی گئی کہ وہ اس رپورٹ کا جواب ارسال کرے۔
2۔ ایران تافتان ریلوے لائن بچھانے کے منصوبے جس پر اخراجات کا تخمینہ 700  ملین امریکی ڈالر لگایا گیا، کی مجوزہ رپورٹ نومبر 2009ء کے پہلے ہفتے میں غورو حوض اور جزوی قرض کی فراہمی کے لیے بھیج دی گئی۔
3۔ بظاہر دکھائی دینے والی اس سردمہری کی کیفیت کا سبب ہہ تو نہیں کہ ایران کی نسبت پاکستان میں آزادانہ تجارت اور بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے موثر اقدامات کیے گیے ہیں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان میں بے شمار مواقع اور آسانیاں ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان میں درآمد کے طریقے بھی سہل ہیں، ایرانی برآمد کنندگان کو پاکستانی منڈیوں تک آسانی سے رسائی حاصل ہے جبکہ پاکستانی سرمایہ کاروں کو ایرانی منڈیوں تک رسائی میں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس سلسلے میں پاکستانی وفد ایرانی وفد سے بات کرے گا۔
4۔ دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا ایک بڑا حصہ جو تقریباً 105 ارب ڈالر ہے سمگلنگ کی نذر ہو رہا ہے وہ اشیاء سمگل ہو رہی ہیں جن کی سرحد پار نقل و حمل پر بھاری ٹیکس اور ڈیوٹی عائد ہوتی ہے دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ اس اہم ترین مسئلے پر بھی بحث کریں اور ان عوامل اور محرکات کا بھی جائزہ لیں جو سمگلنگ کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں۔
5۔  پاک ایران بین الا قوامی روڈ ٹرانسپورٹیشن کے منصوبے کی تاحال ایران نے توثیق نہیں کی۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ایرانی وفد سے گزارش کی جائے کہ وہ اس معاملے پر بھی اپنا موقف بیان کریں تاکہ باہمی مشاورت سے اس منصوبے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جا سکیں اور منصوبے کی تکمیل ہو سکے اس زمینی رابطے کی بحالی سے دونوں ممالک کو معاشی، معاشرتی، تجارتی اور اقتصادی لحاظ سے کافی فائدہ ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 113371
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش