0
Friday 9 Dec 2011 01:17

14ویں دن بھی کوئٹہ، چمن کے راستے نیٹو کو ہر قسم کی رسد معطل ہے، نیٹو افواج کی مشکلات میں اضافہ

14ویں دن بھی کوئٹہ، چمن کے راستے نیٹو کو ہر قسم کی رسد معطل ہے، نیٹو افواج کی مشکلات میں اضافہ
اسلام ٹائمز۔ نیٹو کو بلوچستان کے راستے 14ویں روز بھی رسد بند ہے۔ صوبے کے درجنوں ٹرمینلز پر سینکڑوں آئل ٹینکر اور کنٹینرز کھڑے ہیں۔ افغانستان میں موجود نیٹو افواج کی جانب سے 26 نومبر کو مہمند ایجنسی میں پاک فوج کی چوکی پر فائرنگ کے نتیجے میں 24 جونوانوں کی شہادت کے خلاف حکومت نے ملک بھر کی طرح بلوچستان کے راستے بھی نیٹو کی سپلائی روک دی تھی جس کے باعث 14ویں دن بھی کوئٹہ کے راستے نیٹو کو ہر قسم کی رسد معطل ہے۔
اس وقت کوئٹہ، چمن، دشت، جعفرآباد اور دیگر علاقوں میں سینکڑوں آئل ٹینکرز، کنٹینرز اور ٹرالرز مختلف ٹرمینلز پر کھڑے ہیں جن میں تیل، کھانے پینے کا سامان اور دفاعی سامان اور فوجی گاڑیاں وغیرہ لوڈ ہیں۔ اس وقت بھی قبائلی علاقے خیبر ایجنسی اور بلوچستان کے ضلع چمن میں ہزاروں کنٹینرز اور آئل ٹینکرز سامان رسد اور تیل سے لدے ہوئے پاکستانی علاقے میں کھڑے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں پاک افغان سرحد چمن پر گزشتہ دو ہفتوں سے افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے سپلائی معطل ہونے کی وجہ سے چمن کوئٹہ اور صوبے کے دیگر علاقوں میں پانچ سو سے زیادہ آئل ٹینکرز اور کنٹینرز رکے ہوئے ہیں۔
سپلائی معطل ہونے کے باعث سینکڑوں ڈرائیوروں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے اور انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ٹینکرز اور کنٹینرز کو واپس کراچی بھیجا جائے۔ کوئٹہ میں ایک ڈرائیور نبی شاہ نے بتایا کہ ان کے گھر والے بیمار ہیں اور صبح بھی گھر والوں کا فون آیا کہ آپ گھر آجائیں لیکن کنٹینر کا مالک مجھے گھر جانے نہیں دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ آپ گاڑی کے پاس رہیں۔ پابندی کی وجہ سے افغانستان سے واپس پاکستان میں داخل ہونے والے نیٹو ٹینکرز کے ڈرائیور بھی پریشان ہیں۔ مشکلات بتاتے ہوئے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ڈرائیور ظفرخان کا کہنا ہے کہ وہ بارہ دنوں سے یہاں کھڑے ہیں۔ ’شدید سردی میں وہ رات کو سو نہیں سکتے ہیں اور اب تو ان کے پاس کھانے پینے کے لیے رقم بھی نہیں۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ یہ خطرناک کام کیوں کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ پنجاب میں اکثر کارخانے بجلی اور گیس کی مسلسل لوڈشیڈنگ کے باعث بند ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے ہم یہ خطرناک اور مشکل کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک دوسرے ڈرائیور سلیم خان نے کہا کہ اس بار انہیں افغانستان جانے دیا جائے اور آئندہ نیٹو سپلائی کو ہمیشہ کے لیے بند کیا جائے کیونکہ پاکستان افغانستان میں نیٹو افواج کی اتنی خدمت کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود نیٹو الزامات لگاتا ہے کہ پاکستان سے طالبان دہشت گردی کے لیے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔ دوسری جانب صوبائی حکومت نے نیٹو کنٹینرز اور آئل ٹینکرز کی نگرانی سخت کر دی ہے اور ایف سی نے کوئٹہ کے نواحی علاقے میں واقع نیٹو ٹرمینلز میں لوگوں کی آمدو رفت پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ پاکستان کی جانب سے سرحد بند کرنے کے بعد سے امریکی فوجی حکام دیگر ممالک کے سمندری راستوں کے ذریعے انتہائی کم مقدار میں جنگی رسد افغانستان پہنچا رہے ہیں۔ امریکی فوجی حکام نے ان ممالک کا نام بتانے سے گریز کیا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار ایئر مارشل (ر) مسعود احمد نے بتایا، ’’یہ ان کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ علامتی طور پر بھی ان کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ ان کا بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے وہ (امریکہ) بھی چاہے گا کہ ہم کسی طرح کے تعاون پر تیار ہو جائیں اور ہمیں بھی کرنا پڑے گا بھلے نقصان ہے یا نہیں ہے تو جو کل وزیراعظم نے کہا وہ خوش آئند ہے کہ ہم بات چیت کے ذریعے کہیں نہ کہیں پہنچیں گے کیونکہ ہماری کمزوریاں اپنی جگہ پر ہیں۔ امریکہ کو بھی بالکل اندازہ ہے کہ ہماری حمایت اور تعاون کے بغیر یہ جنگ جیتنا تو درکنار یہ جنگ لڑی بھی نہیں جا سکتی‘‘۔
ادھر خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کے نشیب و فراز کو دیکھتے ہوئے افغانستان میں اپنی افواج کو رسد کی فراہمی کے لیے ہر ممکن ذریعہ تلاش کر چکا ہے تاہم سب سے سہل اور کم خرچ راستہ پاکستان ہی ہے۔ سمبل خان کے مطابق نیٹو افواج کے سامان رسد کے لیے حکومت پاکستان کا کیا معاہدہ ہے؟ اسے سامنے لانا چاہیے تا کہ درست طور پر یہ معلوم ہو سکے کہ پاکستان کو ان خدمات کے عوض معاشی طور پر کتنا فائدہ ہوا ہے۔
نیٹو ٹینکرز کو خروٹ آباد کے مقام پر نامعلوم افراد نے راکٹ فائر کیا ہے جس سے کئی درجن ٹینکرز کو آگ لگی ہوئی ہے۔ اب خدشہ بڑھ گیا ہے جہاں جہاں ٹینکرز کھڑے ہیں اُن کی سیکورٹی کرنا آسان کام نہیں اور کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 120703
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش