0
Saturday 10 Dec 2011 01:03

آئین سے متصادم کسی قانون کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں، افتخار محمد چوہدری

آئین سے متصادم کسی قانون کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں، افتخار محمد چوہدری
اسلام ٹائمز۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ عوام کے بہترین مفاد میں آئینی اختیارات استعمال کرتے رہیں گے اور عدلیہ آئین سے متصادم کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ عدلیہ عوام کے آئینی حقوق کی محافظ ہے اور مہذب معاشرے کی بنیاد قانون کی حکمرانی کے اصول پر ہوتی ہے جہاں حکومت قانون کے تابع ہو وہاں عوام تمام نعمتوں سے فیض یاب ہو سکتے ہیں۔ جمعہ کے روز سپریم کورٹ کے ریٹائر ہونے والے جج جسٹس محمد سائر علی کے اعزاز میں ہونے والے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ امیر اور غریب کے لیے الگ قوانین والے معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں اور قانون کی حکمرانی کی مثال میثاق مدینہ میں بھی شامل ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کوئی بھی فرد خواہ وہ کسی بھی مرتبہ پر ہے قانون کے تابع ہے اور فوج وفاق کی ہدایت پر کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب دے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 15 اور17 آزادی، انصاف اور مساوات کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسلامی شرعی قوانین کے مطابق کو اعلیٰ عہدیدار حتی کہ خلیفہ بھی آئین سے بالا تر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس لیے قانون کی حکمران کے لیے آئین کی بالا دستی، انصاف، قانون کا یکساں اطلاق، آمرانہ اختیارات پر پابندی معاشرتی آزادی اور آزاد عدلیہ ضروری ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون کی حکمران کے سوا معاشرے کی فلاح و بہبود ناممکن ہے اور تین نومبر کے عدالتی فیصلہ کے بعد پہلی بار عدلیہ غلط کو غلط کہنے کے قابل ہوئی اور وکلاء کی بھر پور تحریک سے ججوں کی بحال ممکن ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء تحریک کو سول سوسائٹی، میڈیا اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کی حمایت حاصل تھی جس کی وجہ سے حکومت کو آرمی چیف کی طرف سے غیر آئینی طور پر بنائے گئے ججوں کو بحال کرنا پڑا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب عدلیہ عوام کے اصل حقوق کی محافظ بن کر سامنے آئی ہے اور عدالت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ریاست کی وحدت، خود مختاری اور سالمیت کو دھچکا نہ لگنے دے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صرف یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ عام شہریوں کی آزادی کی ضامن ہو بلکہ پاکستان کے شہریوں کو زندگی کی مکمل سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 146 ،152 اور 159 کے تحت وفاق اور صوبوں کے مابین معاملات کے حوالے سے ثابت مقرر کرنے کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہوتا ہے اور آئین پر عمل پیرا ہو کر قوم سیاسی استحکام معاشی ترقی اور دنیا میں باعزت مقام حاصل کر سکتی ہے۔ آئین نے پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ کے لیے حدود کا تعین کر دیا ہے اور مسلح افواج بھی آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنے کی پابند ہیں اور آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت مسلح افواج وفاقی حکومت کی ہدایت پر کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی پابند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک افواج ملک کے دفاع کا اہم فریضہ سر انجام دے رہی ہیں اور عدلیہ کو بنیادی انسانی حقوق کے مقدمات ہیں مدلل فیصلے دینے چاہیئں اورعدالت عظمیٰ قوم کے بہترین مفاد میں اپنی حدود میں رہتے ہوئے اختیارات کا استعمال کرے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف کسی عمل کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں 31 جولائی 2009ء کا تاریخ ساز فیصلہ یاد ہے جس کے ذریعے اعلیٰ عدلہ کے بہت سے ججوں کو ہٹانا پڑا حتیٰ کہ بلوچستان ہائی کورٹ بالکل خالی ہو گئی لیکن یہ وہ قیمت تھی جو صرف ایک بار ادا کی گئی تاکہ آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی قائم کی جا سکے۔چیف جسٹس نے ریٹائر ہونے والے جج جسٹس سائر علی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی خدمات کا بھی ذکر کیا۔ قبل ازیں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین لطیف آفریدی نے کہا کہ ماضی میں عدلیہ نے سیاسی امور میں مداخلت کی ہے اور اب بھی جمہوریت کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں۔ آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ پر حملہ کیا جا رہا ہے اور ان حالات میں بینچ اور بار غیر آئینی اقدامات کو قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی مسائل عدالتوں کی بجائے سیاسی فورم پر حل ہونے چاہیئں۔ جسٹس سائر علی کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر یاسین آزاد نے بھی خطاب کیا۔
خبر کا کوڈ : 120925
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش