0
Saturday 17 Dec 2011 19:16

فوجی قیادت نے سپریم کورٹ میں داخل کرائے گئے جواب میں صدر اور وزیراعظم کو ٹارگٹ نہیں کیا

فوجی قیادت نے سپریم کورٹ میں داخل کرائے گئے جواب میں صدر اور وزیراعظم کو ٹارگٹ نہیں کیا
اسلام ٹائمز۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی آئی آیس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے میمو گیٹ سکینڈل سے متعلق سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جوابات میں کہیں بھی صدر اور وزیراعظم کو ٹارگٹ نہ کیا تاہم وزیراعظم یوسف رضا گیلانی محسوس کر رہے ہیں کہ فوجی قیادت نے اس سلسلہ میں ان کے ساتھ کی گئی اس انڈرسٹینڈنگ کا احترام نہیں کیا جس کے تحت ان کے جوابات کو پہلے وزیراعظم ہاؤس میں آنا تھا۔ جنرل کیانی اور جنرل پاشا کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے بیانات کے بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی واضح طور پر اب یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ دسمبر کے پہلے ہفتے میں کی گئی اس انڈرسٹینڈنگ کا فوجی قیادت نے احترام نہیں کیا جس کے مطابق ان کے جوابات کو پہلے وزیراعظم ہاؤس میں آنا تھا جہاں سے وفاقی حکومت کی لیگل ٹیم نے ایک مشترکہ جواب بنا کر عدالت کو بھیجنا تھا تا کہ یہ پیغام بھیجا جا سکے کہ سیاسی اور فوجی قیادت کا اس معاملے پر موقف ایک ہے۔ یکم دسمبر کو سپریم کورٹ میں نواز شریف کی طرف سے دائر کردہ پٹیشن کے بعد وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی اس اہم میٹنگ میں فوجی قیادت نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ان کے جوابات وزیراعظم ہاؤس سے وفاق کی طرف سے ایک جواب کی شکل میں جائیں گے جس سے گیلانی حکومت نے سکون کا سانس لیا تھا کہ یہ بحران ختم ہو جائے گا۔ 

ذرائع کی خصوصی رپورٹ کے مطابق اگرچہ فوجی قیادت نے جہاں اس انڈرسٹینڈنگ کا احترام نہیں کیا وہاں سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے بیانات میں جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے اس بات کا دھیان ضرور رکھا ہے کہ صدر زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کہیں بھی ٹارگٹ نہ کیا جائے چنانچہ صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی کے لیے ان دونوں جرنیلوں کے بیانات میں ایک حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ جہاں ان دونوں نے وفاقی حکومت کے موقف کے برعکس اپنی رائے دی ہے جس سے حکومت دباؤ میں آئی ہے وہاں صدر اور وزیراعظم کے بارے میں ایک بھی لفظ ایسا نہیں لکھا گیا جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ فوجی قیادت کا ٹارگٹ صدر یا وزیراعظم ہیں ان کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا اصل ٹارگٹ حسین حقانی تھے تاہم وزیراعظم گیلانی کیلئے سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ فوجی قیادت نے انڈرسٹیڈنگ کے برعکس اپنا موقف براہ راست عدالت میں پیش کیا حالانکہ وزیراعظم ہاوس میں ہونے والی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ فوج کے جوابات وزیراعظم ہاوس کے ذریعے جائیں گے تاہم رپورٹ کے مطابق وزیراعظم گیلانی اس بات پر خاصے اپ سیٹ ہیں کہ ان کے ساتھ کی گئی انڈرسٹینڈنگ کا احترام نہیں کیا گیا یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم گیلانی نے جنرل کیانی کو وزیراعظم ہاؤس بلا کر یہ بات ان کے سامنے رکھی اور اپنے میڈیا آفس کو یہ بھی یہ ہدایت دی کہ پاکستانی میڈیا کو بتایا جائے کہ وزیراعظم نے اس ملاقات میں میمو سکینڈل پر محاذ آرائی کا سخت نوٹس لیا یہ بیان وزیراعظم ہاؤس سے جنرل کیانی کی ملاقات کے بعد جاری کیا گیا۔ 

ٹی وی چینلوں پر وزیراعظم گیلانی اور جنرل کیانی کے درمیان ہونے والی میٹنگ کے فوٹیج سے یہ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وزیراعظم گیلانی ا پنے روایتی دوستانہ موڈ میں نہیں اور ان کے چہرے پر لکھا تھا کہ وہ فوجی قیادت کے اس فیصلے سے خوش نہیں کہ وہ عدالت میں اپنا علیحدہ جواب داخل کرائیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آرمی چیف کے چہرے سے بھی تناؤ صاف ظاہر تھا۔ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم گیلانی کو اس بات پر واضح سبکی محسوس ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے دس دسمبر کو ایک نجی ٹی وی کی سالگرہ کے موقع پر دیئے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ فوج اور ڈی جی آئی ایس آئی اپنے جوابات ان کے دفتر کے ذریعے جمع کرائیں گے اس بیان سے یہ تاثر سامنے آیا تھا کہ فوجی اور آئی ایس آئی کا اس ممیو سکینڈل پر ایک موقف تھا تاہم ایسا نہ کیا گیا۔ دوسری طرف پاکستانی میڈیا میں صرف ان دونوں جرنیلوں کے بیانات کو اہمیت تو دی گئی ہے لیکن یہ کہیں نہیں کہا جا رہا کہ ان دونوں جرنیلوں نے کہیں بھی صدر اور وزیراعظم کا نہ تو نام دیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی تاثر دیا ہے کہ وہ دونوں میمو سکینڈل کے ذمہ دار تھے۔ رپورٹ کے مطابق دراصل فوجی قیادت اپنی پوزیشن پر کمپرومائز نہیں کر سکتی تھی اور ان کے لیے اچانک اپنے پرانے موقف سے پھر جانا اتنا آسان نہیں تھا اس لیے انہوں نے وہی پوزیشن لکھ کر عدالت کو بھیجی جس کا اظہار وہ پہلے ہی صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں کر چکے تھے۔ 

رپورٹ کے مطابق فوجی قیادت نے تو اپنے تئیں صدر اور وزیراعظم کا نام تک اپنے جوابات میں نہیں لیا تھا لہذا ان سے شکایت کرنا مناسب نہیں تھا کہ وہ حکومت کے خلاف کسی سازش میں شریک تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سارے معاملے میں ایک بات کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ فوجی قیادت نے میمو سیکینڈل پر سیاسی قیادت پر اعتبار نہیں کیا اور سب سے بڑھ کر وزیراعظم گیلانی کو بھی نہیں بتایا گیا کہ جنرل پاشا لندن جا رہے تھے جہاں ان کی ملاقات اعجاز منصور سے ہوئی اور وہاں سے وہ حسین حقانی کے خلاف مبینہ ثبوت لے کر لوٹے جو انہوں نے اس میٹنگ میں پیش کئے جس میں وزیراعظم کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ پاکستان کے سفیر سے استعفیٰ لے لیتے۔ جب وزیراعظم گیلانی سے ایک انٹرویو میں سوال کیا گیا کہ کیا جنرل پاشا ان سے اجازت لے کر لندن گئے تھے، تو واضح طور پر وہ اس سوال کا جواب دینے سے کترا گئے تھے جس سے پتہ چل گیا تھا کہ انہیں جنرل پاشا کی لندن روانگی کا علم اخبارات کی خبروں سے ہوا تھا۔ وزیراعظم کا خیال تھا کہ وزیراعظم ہاؤس میں فوجی قیادت کے کہنے پر حسین حقانی کو فارغ کرنے کے بعد یہ معاملہ اب حل ہو گیا تھا تاہم نواز شریف کے عدالت جانے کے بعد ان کے لیے پرابلم دوبارہ کھڑا ہونا شروع ہوا جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان کی حکومت کا موقف سنے بغیر نہ صرف ایک کمیشن بنانے کا اعلان کیا بلکہ دس پارٹیوں بشمول آرمی چیف اور ڈی جی ایف آئیٍ اے سے بھی جوابات مانگ لیے لیکن ابھی بھی وزیراعظم گیلانی کا خیال ہے کہ فوجی قیادت ان کے ساتھ کھڑی ہو گی نہ کہ عدالت یا نواز شریف کے ساتھ کیونکہ ان کے اس اعتماد کی ان پاس چند وجوہات تھیں۔ 

رپورٹ کے مطابق پہلی بات تو یہ تھی کہ ان دونوں جرنیلوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ گیلانی ہی تھے جنہوں نے ان کی مدت ملازمت میں توسیع دی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ وہ دونوں ان کی حکومت کے خلاف نہیں جائیں گے۔ دوسرے وزیراعظم گیلانی یہ دیکھ چکے تھے کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار اب تک جنرل کیانی سے چھ خفیہ ملاقاتیں کر کے بھی فوجی قیادت کو یہ یقین نہیں دلا سکے تھے کہ وہ ان کے ساتھ مل کر کام کر سکتے تھے اور وہ قابل بھروسہ تھے خصوصاً نواز شریف فوج کے لیے قابل قبول نہیں تھے۔ گیلانی کو ایک اس وجہ سے بھی تسلی تھی کہ جی ایچ کیو میں ہونے والی ان چھ خفیہ ناکام ملاقاتوں کے بعد چوہدری نثار نے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے تھے اس طرح وزیراعظم گیلانی کے اس اعتماد کے پیچھے ایک اور فیکٹر یہ بھی تھا کہ جب اسامہ اپریشن کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی نے پارلیمنٹ کو آٹھ گھنٹے تک بریفنگ دی تھی تو وہ سیاستدانوں کے چبھتے سوالات سے اتنے زچ ہو گئے تھے کہ ایک موقع پر انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اگر وزیراعظم کہتے ہیں تو وہ ابھی استعفیٰ دے کر گھر جانے کو تیار ہیں اس پر نواز لیگ کے چند ارکان نے آواز لگائی تھی کہ وزیراعظم استعفیٰ لے لیں تاہم جنرل پاشا کو علم تھا کہ گیلانی ان سے استعفیٰ نہیں لیں گے لہذا انہوں نے یہ آفر کر دی تھی اس لیے وزیراعظم گیلانی سمجھتے تھے کہ ان کی حکومت کا تعلق فوجی قیادت سے بہت بہتر تھا اور وہ کبھی بھی نواز شریف کو ان کا متبادل سمجھ کر اقتدار میں لانے کی سازشیں نہیں کریں گے۔ ادھر مبصرین کے مطابق گیلانی حکومت نے عدلیہ کے ساتھ ساتھ فوجی قیادت کو جتنا خوش رکھنے کی کوششیں کی ہیں ان کا نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ فوجی قیادت کو ہر موقع پر سیاسی حکومت کی حمایت ملتی رہی ہے چاہے ان سے کتنے بڑے بڑے بلنڈرز ہی کیوں نہ ہوئے ہوں؟۔ 

خبر کا کوڈ : 122996
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش