0
Thursday 22 Dec 2011 10:48

حکومت پاکستان کا آرمی اور آئی ایس آئی کے آپریشنز پر کوئی کنٹرول نہیں، وزارت دفاع

حکومت پاکستان کا آرمی اور آئی ایس آئی کے آپریشنز پر کوئی کنٹرول نہیں، وزارت دفاع
اسلام ٹائمز۔ حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ میں چلنے والے میمو گیٹ کیس کے حوالے سے اب یہ سنسنی خیز اعتراف کیا ہے کہ اس کا پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے آپرییشنز پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ لہذا حسین حقانی اور اعجاز منصور کے بیانات پر ان سے کوئی جواب طلبی نہ کی جائے۔
حکومت پاکستان نے وزرات دفاع کے ذریعے یہ تحریری اعتراف سپریم کورٹ کو بھیجا ہے جس میں پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سیاسی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ اس کا پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کے آپریشنز پر کوئی کنٹرول نہیں ہے، لہذا حکومت ان کی طرف سے کوئی بھی وضاحت یا جواب سپریم کورٹ میں دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ نے سیکرٹری دفاع لیفٹنٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کو پاکستان کے امریکہ میں مستعفی ہونے والے سفیر حسین حقانی اور میمو گیٹ کے خالق امریکی شہری اعجاز منصور کے تحریری جوابات بھجوائے تھے۔ سپریم کورٹ نے سیکرٹری دفاع کو یہ کہا تھا کہ وہ ان بیانات میں پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کے حوالے سے کی گئی باتوں اور الزامات پر حکومت پاکستان کا موقف دیں۔ اس پر وزارت دفاع نے اب سپریم کورٹ کو لکھ کر بھیجا ہے حکومت پاکستان کا آرمی اور آئی ایس آئی کے آپریشنز پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ جنرل لودھی نے یہ بھی لکھا ہے کہ حکومت پاکستان فوج اور آئی ایس آئی کے صرف انتظامی معاملات کو دیکھتی ہے جس میں دفاعی بجٹ، تنخواہوں اور پرموشن کے نوٹیفیکشن وغیرہ شامل ہیں۔

حکومت پاکستان نے یہ بھی سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ اس لئے وزارت دفاع کو جو بھی حسین حقانی اور اعجاز منصور کے تحریری بیانات جن میں فوج اور آئی ایس آئی کا ذکر ہے، اس بارے میں نہ تو کوئی علم ہے اور نہ ہی وہ اس پوزیشن میں ہے کہ ان پر کوئی تبصرہ کر سکیں۔ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع کا نہ تو اس سلسلے میں ان سے رابطہ ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ایسی اطلاع ہے جو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی جائے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی سیاسی حکومت کا سپریم کورٹ کے سامنے یہ اعتراف کہ اس کا اپنی فوج اور سکریٹ ایجنسی کے آپریشن پر کوئی کنٹرول نہیں ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے فوجی ادارے سویلین کنٹرول کے بغیر اپنے اپنے آپریشنز چلا رہے ہیں۔ اس اعتراف سے سیاسی اور جمہوری حکومت کی بے بسی بھی پہلی دفعہ تحریر کی شکل میں سامنے آئی ہے جس کی دینا کے کسی ملک میں مثال نہیں ملتی، جب حکومت نے ملک کی سب سے بڑی عدالت کو بتایا ہو کہ اس کا اپنی آرمی اور ایجنسی کے آپریشنز پر کوئی کنڑول نہیں ہے، لہذا ان سے ان کے معاملات کے بارے میں کوئی سوال نہ پوچھا جائے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کا یہ قبول کرنا ہے کہ ان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں ادارے تنخواہ تو حکومت پاکستان سے لیتے ہیں، لیکن وہ کام اپنی مرضی سے کرتے ہیں، جن کا حکومت کو کچھ علم نہیں ہے۔

دیگر ذرائع کے مطابق تیزی سے بدلتی صورتحال میں وزارت دفاع نے بدھ کی شب سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ اس کا پاک فوج اور آئی ایس آئی پر آپریشنل کنٹرول نہیں ہے اس لئے وزارت میمو کیس میں فوج اور آئی ایس آئی کی جانب سے پیراوائز جواب جمع نہیں کرا سکتی۔ ایک نجی چینل نے بدھ کو دو صفحات پر مشتمل اس خط کی کاپیاں دکھائیں جو وزارت دفاع نے سپریم کورٹ کو بھیجا ہے۔ وزارت کا کہنا ہے کہ وہ فوج اور آئی ایس آئی کے انتظامی امور دیکھتی ہے، نئی صورتحال وزیراعظم ہاؤس میں پیپلزپارٹی کے سینئر رہنماؤں کے طویل صلاح مشورے کے بعد سامنے آئی جبکہ صدر آصف زرداری بھی کراچی سے ایوان صدر واپس پہنچے۔ قبل ازیں اطلاعات تھیں کہ صدر 27 دسمبر تک کراچی میں قیام کریں گے کیونکہ وہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر گڑھی خدا بخش میں خطاب کریں گے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اور آرمی چیف کے درمیان گمبھیر تناؤ دکھائی دے رہا ہے حالانکہ وزیر اعظم گیلانی اور جنرل اشفاق کیانی کے درمیان چند روز معاملات کو حل کرنے کے لئے ساڑھے تین گھنٹے طویل ملاقات ہوئی تھی مگر اب ایسا لگتا ہے کہ کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
خبر کا کوڈ : 124258
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش