0
Wednesday 28 Dec 2011 10:26

سال نو۔۔۔ڈیرہ اسماعیل خان کے تشیع مایوسی کے اندھیروں سے نکلنے کیلئے تیار (حصہ اول)

سال نو۔۔۔ڈیرہ اسماعیل خان کے تشیع مایوسی کے اندھیروں سے نکلنے کیلئے تیار (حصہ اول)
اسلام ٹائمز۔ ڈیرہ اسماعیل خان خیبر پختونخوا کا سرحدی ضلع ہے، اس کی کل آبادی 10 لاکھ کے لگ بھگ ہے، یہاں سرائیکی، پشتو، اردو اور دیگر زبانیں بولی جاتی ہیں البتہ اکثریت سرائیکی زبان بولنے والوں کی ہے، ڈیرہ اسماعیل خان کو تاریخی اعتبار سے بھی خاصی اہمیت حاصل ہے، یہاں اہل تشیع سمیت مختلف مکاتب فکر کے پیروکار آباد ہیں،1987ء سے ڈیرہ اسماعیل خان کے حالات میں اتار چڑھائو آتا رہا ہے لیکن سال 2006ء کے بعد جہاں ملک کے دیگر شہروں میں دہشتگردی نے تباہی مچائی وہیں ڈیرہ اسماعیل خان بھی بری طرح اسی لہر کی زد میں آیا، اسی دوران شرپسندوں کی جانب سے فرقہ واریت کے فتنہ کو بھی ہوا دی گئی، اس تمام تر صورتحال میں جہاں دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے پرامن شہری نشانہ بنے وہیں سب سے زیادہ نقصان ملت تشیع نے اٹھایا، بم دھماکوں، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ نے سینکڑوں گھرانے اجاڑ دیئے، اب تک تقریباً 450 بے گناہ شیعہ افراد شہادت کے عظیم ترین مقام پر فائز ہو چکے ہیں، جن میں بچے، بوڑھے، نوجوان اور خواتین بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ مختلف سانحات کے باعث معذور ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں کبھی امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا گیا تو کبھی مساجد کو، کبھی بازاروں میں دھماکے ہوئے تو کبھی ہسپتالوں میں، کبھی جنازوں پر خودکش حملے ہوئے تو کبھی راہ چلتے شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی گئی، مزدور بھی دہشتگردوں کا نشانہ بنے تو سرکاری ملازم بھی نہ بچا، کہیں وکیل کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تو کہیں طالب علم کو، کہیں عزاداری میں مصروف شہری شہید ہوا تو کبھی فرائض نبھانے والا پولیس اہلکار، شرپسند سرعام موت کا کھیل کھیلتے رہے لیکن حکومت سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف اور انتظامیہ خاموش رہی، آج بھی کہیں کوئی ماں اپنے جگر کے گوشے کی راہ دیکھتی ہے تو کہیں بوڑھا باپ اپنے شہید بیٹے کی قبر پر جا کر فخر محسوس کرتا ہے، کہیں کوئی بیوہ اپنے سہاگ کے انتظار میں گھر کی دہلیز پر بیٹھی ہے تو کہیں کوئی بچہ آج بھی اس انتظار میں ہے کہ ''میرے بابا آج ضرور آئیں گے کیونکہ دادا ابو کہتے ہیں شہید زندہ ہوتا ہے، میرے بابا نے مجھ سے کھلونے لانے کا وعدہ کیا تھا اس لئے وہ ضرور آئیں گے''،

ملت تشیع کو درپیش مسائل:
ڈیرہ اسماعیل خان میں دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے اثرات اب بھی شہریوں کے اذہان پر قبضہ کئے ہوئے ہیں، خاص طور پر بچے اور شہداء کے لواحقین اب تک ان واقعات کو نہیں بھلا سکے، مقامی ذرائع کے مطابق انتظامیہ نے بھی اہل تشیع کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ہمیشہ بے حسی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا، جبکہ مناسب میڈیا کوریج نہ ہونے کے باعث ضلع کے یہ اہم مسائل اجاگر نہیں ہو سکے، اہل تشیع کے 9 افراد کو مختلف مقدمات میں اسیری کا سامنا ہے، دہشتگردی اور فرقہ واریت کی وجہ سے مقامی لوگوں کا کاروبار اور روزگار شدید متاثر ہوا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کے باعث بھاگنے والے اکثر دہشتگرد ڈیرہ اسماعیل خان میں پناہ لیتے ہیں، لیکن پاک فوج اس حوالے سے ان پر مکمل نظر رکھے ہوئے ہے، دریں اثناء مقامی افراد نے انتظامیہ کیساتھ مذاکراتی عمل تقریباً ختم ہونے کی بھی نشاندہی کی جبکہ بعض شہداء اور اسیروں کے خاندانوں نے بھی نظر انداز کئے جانے کی شکایات کیں۔

شہید ملک ضمیر الحسن کے والد ملک انور کے خیالات کا اظہار:
19 اگست 2008ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں خودکش حملے میں شہید ہونے والے ملک ضمیر الحسن کے والد ملک انور جو سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کے رہنماء بھی ہیں کا اسلام ٹائمز کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میرا بیٹا ضمیر الحسن دھماکے میں شہید ہوا جبکہ دوسرے بیٹے کے کان ضائع ہو گئے،2008ء سے 2010ء تک تین سال ڈیرہ کے حالات انتہائی خراب رہے، جبکہ 2011ء میں بھی ہمارے 8 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن کر شہید ہو چکے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگردی اور فرقہ واریت کی بنیاد 1987ء میں رکھی گئی، جب جلوس کو روکا گیا، اس کے بعد سے اب تک ڈیرہ اسماعیل خان میں ساڑھے چار سو کے قریب اہل تشیع شہید ہو چکے ہیں، جبکہ اب بھی 3 افراد لاپتہ ہیں، انتظامیہ کی جانب سے ہمارے ساتھ کوئی خاص تعاون نہیں کیا جاتا۔

ملک انور کا کہنا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں اہل تشیع کی تقریباً تمام مقامی قیادت شہید ہو چکی ہے، ڈیرہ اسماعیل خان کا کوئی ایسا گھر نہیں جہاں سے شہید کا جنازہ نہ اٹھا ہو، ضلع کے موجودہ حالات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ محرم الحرام یہاں بہتر گزرا لیکن نویں اور دسویں کو کرفیو نافذ تھا جس کی وجہ سے صرف مقامی لوگ ہی جلوسوں اور مجالس عزاء میں شریک ہو سکے، انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ شہادتوں کے باوجود ہمارے حوصلے بلند ہیں، ہم ہرگز اپنا گھر نہیں چھوڑیں گے اور جب تک ہمارے دم میں دم ہے ہم یہیں رہیں گے، جب تک ہم زندہ ہیں امام حسین علیہ السلام کا غم مناتے رہیں گے اور عزاداری کا سلسلہ جاری رہے گا،ان کا کہنا تھا کہ شبیر ع تیری خاطر ہم سر کو کٹا دینگے ماتم کی صدائوں سے دنیا کو ہلا دینگے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 125630
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش