0
Wednesday 28 Dec 2011 19:41

2011 ء سیاسی کامیابیوں کے اعتبار سے تحریک انصاف کا سال رہا، عمران خان’’ پلیئر آف دی ائیر ‘‘ بن گئے

2011 ء سیاسی کامیابیوں کے اعتبار سے تحریک انصاف کا سال رہا، عمران خان’’ پلیئر آف دی ائیر ‘‘ بن گئے
اسلام ٹائمز۔ رخصت ہوتا ہوا سال 2011 ء پاکستان میں سیاسی کامیابیوں کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کا سال رہا۔ گزشتہ دو ماہ میں ’’بگ شوز‘‘ کے انعقاد سے تحریک انصاف نے ملکی سیاست میں ایسی ہلچل مچائی ہے کہ تین سابق وزرائے خارجہ سمیت متعدد ’’ہیوی ویٹ‘‘ سیاستدان بھی اس کے سونامی سے نہ بچ پائے، ایک کے بعد ایک تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد اور خاص کر تحریک کی گزشتہ دو ماہ کی کامیابیوں پر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ عمران خان ’’پاکستانی سیاست کے پلیئر آف دی ائیر ‘‘ بن گئے ہیں۔ عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد 15 سال پہلے ڈالی تھی لیکن یہ پندرہ سال ایک طرف اور گزشتہ دو ماہ ایک جانب ہو گئے ہیں۔ تحریک نے ان دو مہینوں میں جتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں اتنی 15 سال میں کبھی حاصل نہیں ہوئیں۔ 

عمران خان کی گزشتہ پندرہ سال سے جاری سیاسی جدوجہد رنگ لائی اور ان کی عملی کامیابیوں کا باقاعدہ آغاز 30 اکتوبر کو مینار پاکستان سے سے ہوا جس کے بعد ہر گزرتے روز کپتان کے قافلے میں اضافہ ہوتا گیا جس میں نہ صرف سیاستدان بلکہ شوبز اور کھیل کی دنیا سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہوتے گئے۔ گیارہ نومبر کو سابق ڈی جی انٹیلی جنس اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے اختلافات پر مستعفی ہونے والے مسعود شریف خٹک نے تحریک انصاف میں شامل ہو کر سب کو چونکا دیا۔ 17 نومبر کو اسکوائش کے سابق عالمی چیمپین قمرالزمان خان بھی تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تاہم حکمران جماعت پیپلز پارٹی کو عمران کے سونامی سے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب 28 نومبر کو پیپلز پارٹی کے اہم رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی کپتان کی ٹیم میں شامل ہو گئے۔ 

ابھی تجزیہ کار مذکورہ شخصیات کے فیصلوں پر بحث و مباحثوں میں ہی پڑے تھے کہ دسمبر شروع ہو گیا اور اس ماہ کی پہلی خوشی عمران خان کو اس وقت ملی جب تحریک استقلال کے سربراہ ائیر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے عمران کی حمایت کا اعلان کیا۔ 16 دسمبر کو عوامی نیشنل پارٹی کے راہنما اور ممبر قومی اسمبلی خواجہ محمد خان ہوتی، نوابزادہ نصر اللہ خان طورو اور وحید اللہ طورو بھی عمران کے ہمراہ ہو گئے۔ تحریک انصاف کے سونامی نے مسلم لیگ ق کو 18 دسمبر کو ہٹ کیا جس میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قصوری سمیت، اویس لغاری، غلام سرور، سکندر بوسن، اسحاق خان خاکوانی، سعید عباسی اور دیگر رہنماؤں سمیت مسلم لیگ فنکشنل کے جہانگیر ترین بھی تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ 20 دسمبر کو معروف پاپ گلوکار ابرار الحق نے بھی تحریک انصاف کے سائے تلے سیاسی میدان میں قدم رکھ دیا۔ 

اس تمام تر تناظر میں مسلم لیگ نواز جو کافی حد تک کم متاثر نظر آ رہی تھی لیکن 24 دسمبر کو اس کے سینئر نائب صدر جاوید ہاشمی نے بھی تحریک انصاف سے اپنا مستقبل وابستہ کر لیا جس کے بارے میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ن لیگ تاحال سکتے میں ہے۔ اگلے ہی روز یعنی 25 دسمبر کے جلسے میں پیپلز پارٹی کے اہم راہنما اور سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی بھی کپتان کی پناہ میں آ گئے۔ 26 دسمبر کو مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی شاہد محمود بھی تحریک انصاف میں آ گئے۔ اس سے قبل اسی سال دس جنوری کو جسٹس (ر) وجیہیہ الدین احمد، 22 جنوری کو سابق گورنر پنجاب، پانچ اکتوبر کو مسلم لیگ ق کے بانی میاں محمد اظہر، یکم نومبر کو معروف ڈرامہ نویس حسینہ معین، 9 نومبر کو علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال نے اپنا مستقبل عمران خان کے نام کر دیا۔ 
خبر کا کوڈ : 125832
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش