0
Monday 2 Jan 2012 00:35

سال نو۔۔۔ڈیرہ اسماعیل خان کے تشیع مایوسی کے اندھیروں سے نکلنے کیلئے تیار (حصہ دوئم)

سال نو۔۔۔ڈیرہ اسماعیل خان کے تشیع مایوسی کے اندھیروں سے نکلنے کیلئے تیار (حصہ دوئم)
اسلام ٹائمز۔ مقامی ذرائع نے بتایا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگردی کے باعث اہل تشیع کے ساتھ پرامن اہل سنت بھی بری طرح متاثر ہوئے، اب بھی دونوں مکاتب فکر کے پیروکار ایک ساتھ اچھے تعلقات کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان کے شہریوں کو حکومت سے گلہ رہا ہے کہ اس نے ماضی میں یہاں کے حالات ہر ہنگامی بنیادوں پر قابو پانے کیلئے کسی قسم کے اقدامات نہ کئے، جس کی وجہ سے بہت بڑے پیمانے پر جانی نقصانات ہوئے، اس کے علاوہ جنوبی وزیرستان میں ہونے والے آپریشن راہ نجات کے موقع پر ڈیرہ کو محفوظ بنانے کیلئے بھی مناسب انتظامات نہیں کئے گئے، جس کی وجہ سے جنوبی وزیرستان سے بھاگنے والے اکثر دہشتگردوں کو قریبی علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان میں گھسنے کا موقع مل گیا۔

شہداء کے قاتل اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکے:
ڈیرہ اسماعیل خان میں فرقہ واریت اور دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ کر شہید ہونے والے ساڑھے چار سو کے قریب شہداء کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکا، مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ اہل تشیع کی ٹارگٹ کلنگ کے سلسلے میں آٹا میں نمک کے برابر گرفتاریاں ہوئیں، جبکہ بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے تمام کیس تو تقریباً فائلوں کی زینت ہی بنے ہوئے ہیں، دوسری جانب شہداء کے لواحقین کی بے بس نگاہیں سنگدل زمانے کی بے حسی پر صرف آنسو ہی بہا سکتی ہیں۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے


اہل تشیع اسیروں کی تفصیلات:
ڈیرہ اسماعیل خان کے 9 افراد اب بھی اسیری کی اذیت برداشت کرنے پر مجبور ہیں، ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق 22 سالہ نوجوان اختر عباس ولد محمد شفیع جو کہ پولی ٹیکنیکل کالج ڈیرہ اسماعیل خان کا طالب علم تھا کو ایک قتل کیس میں گرفتار کر لیا گیا، جس کے بعد انسداد دہشتگردی کی عدالت اور ہائی کورٹ ڈیرہ اسماعیل خان بینچ نے سزائے موت سنائی، اب سپریم کورٹ میں فیصلہ کے خلاف اپیل دائر ہے، اسیر کا خاندان سپریم کورٹ کے وکیل کو فیس کی ادائیگی کے بعد 9 لاکھ روپے کا مقروض بھی ہو چکا ہے۔
23 سالہ نوجوان عامر شیرازی ولد فدا حسین کو کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے رہنماء کالی کے قتل کیس میں حراست میں لیا گیا، انسداد دہشتگردی ڈیرہ اسماعیل خان کی عدالت نے اسے بھی سزائے موت سنائی، اب ہائی کورٹ ڈیرہ اسماعیل خان میں فیصلہ کے خلاف اپیل دائر ہے۔

26 سالہ نوجوان جہانزیب ولد الطاف حسین کو بھی قتل کیس میں گرفتار کیا گیا، جس کے بعد اس کے اہل خانہ نے سیشن کورٹ میں رٹ دائر کی، بعد ازاں مقامی پولیس نے دسمبر کے آخر میں سلیم افتخار ایڈوکیٹ قتل کیس میں گرفتاری ظاہر کر کے جیل بھیجوا دیا۔
سبطین ولد گل شیر نے دو کیسز میں نام آنے پر سیشن کورٹ میں گرفتاری پیش کر دی، اب دونوں مقدمات سے باعزت بری ہو چکا ہے، اس کے علاوہ اس کے 2 بھائی اب بھی مقدمات میں مفرور ہیں، جبکہ غریب خاندان کیس لڑنے کی وجہ سے 25 ہزار روپے کا مقروض ہے۔
22 سالہ نوجوان نوید علی ولد امداد حسین کو اگست 2010ء سے سرائے مہاجر بھکر سے گرفتار کیا گیا، فروری 2011ء میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، بعدازاں سپریم کورٹ کے قائم کردہ کمیشن برائے لاپتہ افراد میں فارم فل کروا کر بھیجوایا گیا اور تھانہ سرائے مہاجر بھکر میں گمشدگی کی ایف آئی آر درج کروانے کی کوشش کی گئی مگر ایف آئی آر درج نہ ہو سکی، سپریم کورٹ آف پاکستان میں رٹ دائر کرنے کی فیس مبلغ 1 لاکھ روپے وکیل سے طے ہوئی، اہل خانہ کو اب بھی 70ہزار روپے کی مالی امداد کی اشد ضرورت ہے۔

23 سالہ ظفر علی ولد محمد حسین کو اگست 2010ء میں ایران جاتے ہوئے تفتان کے قریب سے گرفتار کیا گیا، فروری 2011ء میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، مگر ابھی تک کیس کا فیصلہ نہیں ہو سکا، ذرائع کے مطابق اس خاندان کو بھی مالی امداد کی ضرورت ہے۔
20 سال نوجوان ناصر کاظمی ولد بشیر حسین کاظمی کو ڈیرہ اسماعیل خان سے راولپنڈی جاتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا، سپریم کورٹ کے قائم کردہ کمیشن برائے لاپتہ افراد میں درخواست دائر کی گئی، بعدازاں تھانہ پیرودھائی راولپنڈی میں FIR درج ہو چکی، اس سے قبل ناصر کاظمی کے والد بشیر حسین کاظمی کے بڑے بھائی شوکت شاہ اور چھوٹے بھائی حشمت سمیت خاندان کے 26 افراد دہشتگردی کا شکار ہو چکے ہیں۔
یونس کاظمی ولد کفایت حسین کو گزشتہ عیدالفطر سے 2 روز قبل حراست میں لے لیا گیا، سپریم کورٹ کے قائم کردہ کمیشن برائے لاپتہ افراد میں درخواست دائر کی گئی، بعد ازاں تھانہ سرائے مہاجر بھکر میں FIR درج کی گئی، اس سے قبل یونس کاظمی کالعدم تنظیم کے مقامی رہنماء کے مقدمہ قتل میں 6 ماہ گرفتار رہا۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے حالات پر مجلس وحدت مسلمین کے ضلعی سیکرٹری جنرل مسرت حسین کی بات چیت:
مسرت حسین نے اسلام ٹائمز کو بتایا کہ ایم ڈبلیو ایم کا سیٹ اپ ڈیرہ اسماعیل خان میں مارچ 2011ء میں وجود میں آیا ہے، گذشتہ ماہ مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے ڈیرہ کا دورہ کیا، اس دورہ میں انہوں نے اپنے خطاب میں اتفاق اور اتحاد پر بھرپور زور دیا، انہوں نے اہل تشیع کو یہ یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ اگر کسی قسم کا بھی مسئلہ درپیش ہو تو مجلس وحدت مسلمین ان کی ہر قسم کی مدد کرے گی، اس کے علاوہ ایم ڈبلیو ایم یہاں شہداء کانفرنس بھی منعقد کر چکی ہے، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں مومنین کے قتل عام کی ایک وجہ آپس کی نااتفاقی بھی ہے، جبکہ دشمن کا منظم ہونا اور انتظامیہ کی لاپرواہی بھی اس قتل و غارت گری کی اہم وجوہات ہیں۔ مسرت حسین نے بتایا کہ کئی معاملات میں انتظامیہ نے مکمل طور پر جانبدارانہ کردار ادا کیا، انتظامیہ پس پردہ کالعدم سپاہ صحابہ کو بھی سپورٹ کرتی رہی ہے۔

شیعہ علماء کونسل خیبر پختونخوا کے صدر علامہ رمضان توقیر کی اسلام ٹائمز سے گفتگو:
علامہ رمضان توقیر نے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے حالات جب بہت خراب تھے ہم نے اس وقت لوگوں کا حوصلہ بڑھایا، ہم نے جولائی 2008ء میں شہدائے اسلام کانفرنس منعقد کی اور لوگوں سے کہا کہ ڈیرہ کو چھوڑ کر نہیں جانا، اس میں کوئی شک نہیں کہ حالات اتنے اچھے نہیں، لیکن ماضی کے مقابلے میں بہتری آئی ہے، اہلسنت کیساتھ ملکر 6 مشترکہ پروگرام منعقد ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ڈیرہ اسماعیل خان کے حالات میں بہتری آئی، محرم الحرام کے موقع پر بھی سیکورٹی فورسز کے حکام نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ یہاں شیعہ سنی مسئلہ نہیں ہو گا البتہ خطرہ دہشتگردوں سے ہو سکتا ہے، جہاں تک شہداء کے لواحقین کی خبرگیری کا تعلق ہے تو ہم ان سے بھی رابطے میں رہتے ہیں، اس کے علاوہ کئی اسیرون کے خاندانوں کو بھی ہر طرح سپوٹ کر رہے ہیں، مایوس نہیں ہونا چاہئے، مجھے امید ہے کہ حالات اب بہتری کی طرف ہی جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 126863
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش