0
Tuesday 6 Oct 2009 11:35

ایٹم بم،ہولوکاسٹ اور احمدی نژاد

ایٹم بم،ہولوکاسٹ اور احمدی نژاد
ایس اے قدوائی
ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے گذشتہ دنوں اقوام متحدہ میں اپنی تقریر سے قبل نیوز ویک کے لیلی ویے ماﺅتھ اور واشنگٹن یونٹ کے ایڈیٹرز کو دیے جانے والے انٹرویو میں امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ جنیوا میں ہونے والی بات چیت کے بارے میں تفصیلی اظہار خیال کیا۔ ایرانی صدر نے اس موقع پر صدر اوباما کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور”ہولوکاسٹ“ کے وجود سے انکار کا اعادہ کیا۔ اس انٹرویو کا ترجمہ قارئین کی نذر ہے۔
 وے ماﺅتھ:۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے ایران نے نیوز ویک کے نامہ نگار مازیار طاری کو تین ماہ سے قید کر رکھا ہے۔ کیا انسانی بنیاد پر آپ ان کی رہائی کے بارے میں غور کریں گے؟۔ 
احمدی نژاد:۔ میں تو تمام قیدیوں کو رہا کرنا چاہوں گا مگر میں کوئی جج نہیں ہوں۔ اس کا فیصلہ تو بہرحال جج ہی کو کرنا ہے۔ اگر یہ معاملہ میرے اختیار میں ہوتا تو میں اس کی ضمانت دیتا کہ تمام قیدی رہا کر دیئے جائیں گے۔ 
وے ماﺅتھ:۔ ایران جب مغرب کے ساتھ دوبارہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو کیا آپ پھر بھی ”ہولوکاسٹ“ کے وجود سے انکار کریں گے جسے بڑی آسانی سے رد کیا جا سکتا ہے ؟۔ 
احمدی نژاد:۔آپ کا تو یہ خیال نہیں کہ ”ہولوکاسٹ“ نہایت اہم مسئلہ ہے ؟۔
 وے ماﺅتھ:۔ ہاں میرے خیال میں یہ 20 ویں صدی کا سنگین ترین جرم ہے۔ 
احمدی نژاد:۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ ”ہولوکاسٹ“ اپنے اثرات کے حوالہ سے آج بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے۔؟
 وے ماﺅتھ:۔ میرے خیال سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق اس سے پڑتا ہے کہ آپ کیا سوچتے ہیں جناب صدر۔ 
احمدی نژاد:۔ میں یہ بات سمجھتا ہوں مگر ہمارے لیے بہتر یہی ہو گا کہ اپنے نقطہ ہائے نظریہ پر تبادلہ خیال کریں تا کہ یہاں اس مسئلہ کا کوئی حل تلاش کیا جاسکے۔ 
وے ماﺅتھ:۔ یہ تو بالکل واضح ہے کہ ”ہولوکاسٹ“ کا سانحہ رونما ہوا تھا۔ آپ کیسے کہتے ہیں کہ ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔؟ 
احمدی نژاد:۔میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ بہت واضح ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں بے شمار جرائم کا ارتکاب کیا گیا تھا۔ 60 ملین سے زائد لوگ مارے گئے تھے اور اس سے کہیں بڑی تعداد بے گھر ہوئے تھے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جنگ عظیم دوئم میں جو کچھ ہوا اس کے کسی اور واقعہ سے ذیادہ صرف ”ہولوکاسٹ“ ہی پر اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آخر مغربی سیاستدانوں نے اپنی ساری توجہ اسی ایک مسئلہ پر کیوں مرکوز کر رکھی ہے؟ اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا تھا تو یہ کہاں پیش آیا تھا،اس کا ارتکاب کرنے والے کون لوگ تھے اور اس میں فلسطینی عوام کا کیا کردار تھا؟ انہوں نے ایسا کون سا جرم کیا تھا کہ انہیں اس کے نتائج بھگتنا پڑیں”ہولوکاسٹ“ میں انہوں نے کیا کردار ادا کیا تھا ؟ ان کی زمین پر قبضہ کے لیے ”ہولوکاسٹ“ کا بہانہ کیوں تراشا گیا؟ ہماری نظر میں تو ”ہولوکاسٹ“ دراصل فلسطینی عوام کی نسل کشی کا بہانہ ہے۔
 وے ماﺅتھ:۔ اس بارے میں بڑی بحث و تکرار رہی کہ جون کے صدارتی انتخاب میں آپ نے دھاندلی کے ذریعہ کامیابی حاصل کی۔ کیا آپ اپوزیشن امیدوار میر حسین موسوی پر مقدمہ چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔؟ 
احمدی نژاد:۔ایران میں مختلف گروپوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو فیصلے کی پوری آزادی ہے کہ وہ اپنے لیے کس سیاسی راستے کو منتخب کرتے ہیں۔ میں کسی کو عدالت میں گھسیٹنا نہیں چاہتا۔
 وے ماﺅتھ:۔ کیا موسوی پر مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔؟ 
احمدی نژاد:۔یہ عدلیہ پر منحصر ہے۔ حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو عدالت ہی اس سے نمٹے گی اور اگر ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ہے تو پھر کارروائی بھی نہیں ہو گی۔
 وے ماﺅتھ:۔ الیکشن کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس پر بہت سے لوگوں کو تشویش ہے۔ کیا آپ جنیوا ملاقات کے موقع پر ان مسائل پر تبادلہ خیال کے لیے تیار ہیں۔؟ 
احمدی نژاد:۔کیا آپ کو امریکا میں قیدیوں کی تعداد کا علم ہے؟
 وے ماﺅتھ:۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ ایران کی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے تیار ہیں۔
 احمدی نژاد:۔میں آپ کا سوال سمجھ گیا اور میں اس کا جواب بھی دینا چاہتا ہوں۔امریکا میں 36 لاکھ قیدی ہیں۔ ہم اس بات کا کیا جواز پیش کریں گے کہ 3.6 ملین جیلوں میں کیوں قید ہیں ؟۔ اگر کسی نے کوئی قانون شکنی نہیں کی تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان کو جیل جانا پڑے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کو جیل کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ ہمارے اپنے عدالتی نظام میں اس امر کی ضمانت دینے کی ہر کوشش کی جاتی ہے کہ عدالت کے سامنے پیش ہونے والوں کے حقوق کی پاسداری کی جائے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کہیں کوئی افسر کبھی قانون کی خلاف ورزی کر ہی نہیں سکتا۔ اس قسم کے معاملات سے نمٹنا ہمارے عدالتی نظام کی ذمہ داری ہے ہم جنیوا میں جن مسائل پر بات کریں گے وہ بہت واضح ہیں مثلاً عالمی سلامتی کا مسئلہ، تخفیف اسلحہ،اقتصادی مسائل اور بین الاقوامی تعلقات کے معاملات زیر بحث آئیں گے۔
 وے ماﺅتھ:۔ آپ کا کہنا ہے کہ جنیوا میں آپ اپنے ایٹمی پروگرام پر بات نہیں کریں گے۔ آیا آپ اپنے اس موقف پر ڈٹے رہیں گے یا مغرب کے ساتھ ”کچھ لو اور کچھ دو“ کی بنیاد پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ احمدی نژاد:۔ایٹمی مسئلہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای ای) سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے ہماری کچھ ذمہ داریاں اور کچھ فرائض اور حقوق بھی ہیں ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے اور اور اپنے حقوق سے بھی مستفید ہوں گے۔
 وے ماﺅتھ:۔ لیکن آپ نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں،اقوام متحدہ نے آپ پر پابندیاں عائد کی ہیں اور یوں آئی اے ای اے کے تحت آپ کے حقوق سلب ہو چکے ہیں۔ کیا آپ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق افزودگی کا اپنا پروگرام معطل کر دیں گے؟ کیا آپ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے اضافی پروٹوکول سے تعاون کریں گے۔ جس پر آپ نے ابتدائی طور پر دستخط کیے تھے۔؟ (ایران نے بعد میں اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی) ۔ 
احمدی نژاد:۔ایجنسی کی باضابطہ اور بار بار جاری کردہ رپورٹس کی بنیاد پر ایران نے اپنی ایٹمی سرگرمیاں ایجنسی کے متعین کردہ قانونی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے انجام دی ہیں ہم نے اس فریم ورک کے علاوہ اس سے متجاوز نئی ذمہ داریاں بھی رضاکارانہ طور پر قبول کی ہیں۔ 
وے ماﺅتھ:۔ اگست میں ایجنسی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایجنسی نہیں سمجھتی کہ ایران نے ان مسائل کی حقیقی وجوہ کے ازالہ کے ضمن میں کوئی مناسب پیش رفت کی ہے۔ اسی لیے ایجنسی نے اس سلسلہ میں ایران سے ذیادہ ٹھوس اقدامات کرنے اور ایجنسی کو متعلقہ افراد معلومات اور مقامات تک رسائی کی سہولت فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔“ 
احمدی نژاد:۔یہ تو ہمارے خلاف وہ الزامات اور مطالبات ہیں جو امریکا نے کیے ہیں اور ہم ان کا جواب دینے کے پابند نہیں ہیں۔ 
وے ماﺅتھ:۔ اب صدر اوباما کے حوالہ سے میرا سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسی شخصیت ہیں، جس کے ساتھ آپ متنازعہ امور پر بات کرسکتے ہیں ؟ 
احمدی نژاد:۔ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ اوباما حقیقی تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ ہم ان تبدیلیوں میں مدد دینے کے خواہاں ہیں جنیوا میں ملاقات کے موقع پر ہم چند مسائل پر تبادلہ خیال کے لیے تیار ہیں جن میں ہماری داخلی ضروریات کیا ہیں، 20 فیصد تک گریڈ کے افزودہ یورینیم کی خریداری پر ہماری آمادگی کا معاملہ بھی شامل ہے۔ لیکن اگر نئی زبان اور طرز بیان کے ساتھ بش کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا تو پھر ہم کچھ زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ پالیسیوں کی تبدیلی ضروری ہے۔ 
وے ماﺅتھ:۔ کیا یہ بات درست ہے کہ آپ امریکا سے افزودہ ایٹمی ایندھن کی خریداری پر آمادہ ہو جائیں گے؟۔ 
احمدی نژاد:۔تہران میں ہمارے پاس ایک ری ایکٹر ہے جو ریڈیو ایکٹیو اور سلکی تابکار) ٹیکنالوجیز پر مبنی نیوکلیئر میڈیسن تیار کرتا ہے اور جس کے لیے 19.75 فیصد گریڈ کے افزودہ مواد کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم یہ مٹیریل خریدنے پر تیار ہیں۔ ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں کہ ہمارے ایٹمی ماہرین مل بیٹھیں اور ممکنہ شعبوں میں ایٹمی تعاون کے معاملہ پر تبادلہ خیال کریں میرے خیال میں یہ بڑی ٹھوس تجویز ہے جو آغاز کے لیے بڑا اچھا موقع فراہم کرتی ہے۔ 
وے ماﺅتھ:۔ لیکن ہماری اس گفتگو کے دوران بھی آپ ایران میں یورینیم افزودہ کرنے میں مصروف ہیں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ آپ کے پاس خام ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے خاصی مقدار میں افزودہ یورینیم موجود ہے۔ 
احمدی نژاد:۔یہ مواد بم بنانے کے لیے کارآمد نہیں ہے۔ بم بنانے کے لیے 99.07 فیصد گریڈ کا افزودہ یورینیم درکار ہوتا ہے۔ ہمارے خیال میں ایٹم بموں کی تیاری اور حصول غلط بات ہے۔ کیا آپ کے علم میں ہے کہ امریکا کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں۔ 
وے ماﺅتھ:۔ آپ مستقبل میں افغانستان کو کس طرح دیکھتے ہیں ؟کیا وہاں آپ کو ایران،امریکا تعاون کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے۔ یا آپ وہاں ایران کا غلبہ دیکھ رہے ہیں؟۔ 
احمدی نژاد:۔ افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے گہرے تاریخی اور جذباتی رشتے ہیں افغانستان میں سیکورٹی کی صورتحال سب سے زیادہ ایران پر اثر انداز ہوتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جس قدر جلد ممکن ہو افغانستان میں تحفظ اور سلامتی کی فضاء بحال ہو جائے۔ میں شروع سے ہی کہتا رہا ہوں کہ ہم مدد کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ وہاں جن پالیسیوں پر عمل ہو رہا ہے وہ تبدیل ہو جائیں۔ افغانستان کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں ہے۔ 
وے ماﺅتھ:۔ کیا آپ نے جنرل میک کرسٹل کی رپورٹ دیکھی ہے؟ یہ بڑی ہوشربا رپورٹ تھی۔ 
احمدی نژاد:۔ ہاں یہ بات درست ہے مگر سات سال بعد یہ خیال کیوں آیا؟ کیا وہاں گھسنے سے پہلے اس وقت یہ سوالات نہیں اٹھانا چاہیے تھے ۔ یہ بات اس وقت کیوں نہیں کی گئی جب بش انتظامیہ کے تحت جنگ کے شعلے بھڑکانے کا عمل اپنے عروج پر تھا۔؟ 
وے ماﺅتھ:۔ مگر 11 ستمبر کو نیو یارک میں 3000 لوگ ہلاک ہوئے تھے ! 
احمدی نژاد:۔آپ خون کو خون سے تو نہیں دھو سکتے۔ جب سے ناٹو افواج افغانستان میں داخل ہوئی ہیں،دہشت گردی دس گنا بڑھ گئی ہے اور منشیات کی پیداوار میں 5 گنا اضافہ ہواہے۔ یہاں بھی آپ کو ایک تاریخی واقعہ یاد دلاتا چلوں ۔ تقریباً 100 سال قبل برطانوی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں مگر بھاری شکست کھا کر نکلنا پڑا۔ پھر 30 سال قبل سوویت افواج افغانستان میں گھس آئیں مگر شکست ان کا بھی مقدر بنی۔ آخر بش کو یہ کیوں سوجھی کہ ان میں کوئی ایسی مافوق الفطرت قوت موجود ہے جس کی بنیادپر وہ ایک ایسی جنگ جیت سکتے ہیں جو سوویت اور برطانوی افواج بھی کبھی نہ جیت سکیں ؟۔ وہاں یورپی اور امریکی عوام کی دولت بے دریغ برباد کی جا رہی ہے جس کا نتیجہ شکست کے سوا کچھ نکل ہی نہیں سکتا۔ یہی پیسہ دوست بنانے اور تعمیر نو کے لیے بھی تو استعمال کیا جا سکتا تھا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ افغانستان میں ناٹو افواج کی شکست فاش بس کچھ دیر کی بات ہے ۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے اور اصرار کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کا انسانی حل بھی موجود ہے اور ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ سیاستدانوں اور ناٹو نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لی ہیں اور وہ کسی قسم کی نکتہ چینی اور تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہیں ہم تو افغانستان میں ان کی پالیسیوں میں تبدیلی میں مدد دینے کے لیے بھی تیار ہیں لیکن اس کی پیشگی شرط یہی ہے کہ وہ ہماری بات سننے پر آمادہ ہوں۔ جنرل کی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اب تک یہ پالیسیاں غلط ثابت ہوئی ہیں لہٰذا یہ پالیسیاں کب تبدیل ہوں گی۔؟ 
وے ماﺅتھ:۔ جناب صدر کیا آپ مازیار کے لیے کچھ کریں گے؟۔
 احمدی نژاد:۔میں اپنی والی کوشش کروں۔ براہ مہربانی اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیجیے کہ وہ قوانین نہ توڑیں۔


خبر کا کوڈ : 12723
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش