0
Thursday 5 Jan 2012 12:02

اظہار وجوہ کا نوٹس، کیوں نہ بابر اعوان کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے، چیف جسٹس

اظہار وجوہ کا نوٹس، کیوں نہ بابر اعوان کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے، چیف جسٹس
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ میں بھٹو کیس سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران وفاق کے وکیل بابر اعوان کی گذشتہ روز میڈیا سے گفتگو کی ویڈیو کمرہ عدالت میں دکھائی گئی، جس پر بابر اعوان کی سرزنش کی گئی اور سپریم کورٹ کی جانب سے ایک اور اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کیوں نہ بابر اعوان کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے۔ آج جب کارروائی شروع ہوئی تو کمرہ عدالت میں بابر اعوان کی گذشتہ روز کی ویڈیو دکھانے کے بعد جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ 36 سال سے اس شعبے سے وابستہ ہیں آج یہ عزت ملی؟ یہ تنقید نہیں، توہین کی گئی۔ بابر اعوان نے موٴقف اختیار کیا کہ انہوں نے عدالت کی تحسین کی، جس پر وہاں موجود لطیف آفریدی اور یسین آزاد دونوں نے بابر اعوان کے بیان کی مذمت کی، تاہم عدالت سے درخواست ہے کہ وہ تحمل سے کام لے۔ جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس میں کہا کہ وہ عدلیہ پر تنقید کے حق میں ہیں لیکن بابر اعوان کا بیان عدلیہ پر تنقید نہیں۔ انہوں نے بابر اعوان سے سوال کیا کہ وہ کتنے عرصے سے وکالت کر رہے ہیں جس پر بابر اعوان نے کہا کہ دن اور تاریخ یاد نہیں۔ چیف جسٹس نے بابر اعوان سے ویڈیو دیکھنے کے بعد سوال کیا کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے بابر اعوان سے کہا کہ وکالت کا لائسنس کب ملا، فائل لے کر آئیں، عدالتی کارروائی کی تضحیک کا کسی کو اختیار نہیں، بابر اعوان کا یہ رویہ اور طرز عمل درست نہیں، وہ اس عمل کی وضاحت پیش کریں اور بابر اعوان اس نوٹس کا جواب 9 جنوری سے پہلے داخل کریں۔ اس حکم نامے کے بعد بھٹو ریفرنس کیس کی سماعت 9 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔

دیگر ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے معاملے پر حکم سناتے ہوئے کہا کہ معاملے کے فیصلے تک بھٹو ریفرنس کیس کی سماعت ملتوی رہے گی۔ حکم میں کہا گیا کہ سینئر وکیل کو عدلیہ کی تضحیک کرنے کی اتھارٹی حاصل نہیں۔ عدالت نے سیکرٹری اطلاعات کو بابر اعوان کی گفتگو کی اصل ویڈیو رجسٹرار کے پاس جمع کر انے کی ہدایت کی۔ اس سے پہلے جب بھٹو ریفرنس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے وفاق کے وکیل بابر اعوان کی گذشتہ روز میڈیا سے گفتگو کا نوٹس لیتے ہوئے اخبارات کے تراشے اور ویڈیوز منگوالیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معاملہ اہم ہے اس کی سماعت پہلے ہو گی۔ انہوں نے بابر اعوان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اداروں کی عزت نہیں کریں گے تو پھر کسی دوسرے سے کیا توقع رکھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ پبلک پراپرٹی تو بن جاتا ہے لیکن تنقید دائرے میں رہ کر ہونی چاہئے۔ وکلا فیصلہ کریں گے کہ توہین ہوئی ہے یا نہیں۔ بابر اعوان کا کہنا تھا کہ عدالت انہیں سنے بغیر یکطرفہ فیصلہ نہیں کر سکتی، شعر کے ایک حصے کو نہ دیکھیں، معاملہ حل کروانے کیلئے بار کے سینئیر وکلا بھی متحرک رہے، لیکن عدالت نے انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا۔ 
خبر کا کوڈ : 127809
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش