0
Friday 13 Jan 2012 23:55

پارلیمان ڈائری، حکومت کے حق میں قرارداد پیش، حزب اختلاف کا ایمرجنسی اجلاس پر احتجاج

پارلیمان ڈائری، حکومت کے حق میں قرارداد پیش، حزب اختلاف کا ایمرجنسی اجلاس پر احتجاج

اسلام ٹائمز۔ قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر فہمیدہ مرزا کی زیر صدارت شروع ہوا تو آغاز توجہ دلائو نوٹس سے کیا گیا۔ محترمہ نزہت صادق نے پی آئی اے کی مبینہ ارہوں روپوں کی نئے طیاروں کی خریداری پر ایوان کی توجہ مبذول کروائی۔ نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ یہ ایمرجنسی اجلاس کیوں بلایا گیا، حکومت کس سے خائف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ایوان اور جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔ ان کے بقول خطرہ ہے تو اس حکومت کو ہے۔ ایبٹ آباد، سلالہ اور مہران بیس جیسے واقعات پر تو اجلاس نہیں بلایا گیا لیکن حکمران اپنے ذاتی ایجنڈے کے لئے اجلاس بلا رہے ہیں۔ ہم اس ایوان میں این آر اور کو زیر بحث نہیں لا سکتے۔ افواج پاکستان کے ساتھ حکومت کا تنازعہ ایک انتظامی معاملہ ہے اس پر بھی ایوان میں بات نہیں کی جا سکتی۔ نثار علی خان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت نے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی تو اب رونا کس بات کا۔ اس موقع پر انہوں نے ایک شعر پڑھا "اب کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں، اسطرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں"۔ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ فوج کے ساتھ حکومت کے تنازعے کے بارے میں وزیراعظم اور اٹارنی جنرل کے بیان میں تضاد کیوں ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے پاس عددی برتری ہو تو ہم حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ لائیں گے نہ کہ اعتماد کا۔
 
قائد حزب اختلاف کے بعد وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے قومی اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے متفقہ طور پر اس ملک کا وزیراعظم منتخب کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ پارلیمنٹ یا وزیراعظم کی مدت کم ہونی چاہتے تو وہ قرارداد لائے اور آئین میں تبدیلی کی جائے۔ اس بات کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انکا کہنا تھا کہ ہمیں اگر کوئی برداشت نہیں کرسکتا تو باقاعدہ طور پر ترمیم لائی جائے۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ہم لوگ آتے جاتے رہتے ہیں لیکن ادارے قائم رہتے ہیں، اس لئے ان کے درمیان تصادم نہین ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا جب ذوالفقار علی بھٹو نے آئین ترتیب دیا تھا تو اس وقت بھی ان اداروں نے ان پر تنقید کی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے ایک شعر پڑھا "عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن   یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ"

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کوئی ادارہ ہمیں آئین کی تشریخ نہ سمجھائے۔ انہوں نے اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ آئین کی تشریح کریں تو ہمارے لئے قابل قبول ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے این آر او سے بچنے کے لئے یہ اجلاس طلب نہیں کیا، نہ ہی ہم اداروں کے درمیاں ٹکرائو چاہتے ہیں۔ ہم شہید ہونے کے لئے بھی نہیں آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپوزیشن کی طرح جدوجہد کر کے آئے ہیں، صعوبتیں برداشت کی ہیں، ہم نے کوڑے کھائے ہیں۔ ہم فوج یا عدلیہ کے خلاف یہ قرارداد نہیں لائے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مشکل وقت میں کوے بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں ہم تو پھر انسان ہیں۔ اس پر چوہدری نثار کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم کوے نہیں ہیں ان کے اردگرد جو منڈلا رہے ہیں وہ کوے ہیں وہ جانیں اور وزیراعظم جانیں۔

وزیراعظم کی تقریر کے بعد ایوان کی معمول کی کاروائی کو معطل کر دیا گیا اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی نے حکومت کے حق میں قرارداد پیش کی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ جمہوریت عوام کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ یہ ایوان جمہوری اداروں اور سیاسی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔ اس کے بعد وزیراعظم فورا کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم یہ قرارداد ایوان پر مسلط نہیں کرنا چاہتے اس لئے اس پر ووٹنگ سموار کو کروائی جائے۔ اس کے بعد قومی اسمبلی کو اجلاس سموار کی شام پانچ بجے تک ملتوی ہو گیا۔ 

خبر کا کوڈ : 129988
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش