0
Sunday 22 Jan 2012 00:58

عدلیہ نے کبھی بھی انتظامیہ یا مقننہ کے اختیارات سلب نہیں کئے، چیف جسٹس

عدلیہ نے کبھی بھی انتظامیہ یا مقننہ کے اختیارات سلب نہیں کئے، چیف جسٹس
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ عدلیہ نے کبھی بھی انتظامیہ یا مقننہ کے اختیارات سلب نہیں کئے بلکہ ہمیشہ اپنے آئینی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کی منتخب شدہ باڈی سے حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئینی طور پر عدالت عظمیٰ اس کے سامنے رکھے گئے مختلف نوعیت کے دائرہ اختیارات میں آنیو الے معاملات پر فیصلہ دینے کی پابند ہے۔ ان فیصلوں کے وسیع آئینی اور قومی اثرات ہوتے ہیں۔ تاہم ضلعی سطح پر قائم عدالتوں کا کام براہ راست نچلی سطح پر ایک عام آدمی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ان پر لوگوں کی نظر میں انصاف کی فراہمی کی جنگ جیتی یا ہاری جاتی ہے۔ ضلعی سطح پر بینچ اور بار دونوں کی بھر پور ذمہ داری ہے کہ اپنے تمام تر ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے عوامی سائلوں کو سہولیات بہم پہنچائیں۔

چف جسٹس نے کہا کہ جمہوری نظام میں عدلیہ کو اپنے آئینی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ایک آزاد ادارے کے طور پر کام کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح مقننہ اور انتظامیہ بھی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے متعلقہ شعبوں میں آزاد ہیں۔ عدلیہ کو قانون کے محافظ کے طور پر دیگر اداروں کے اختیارات کے استعمال پر کڑی نگرانی رکھنی ہے تاکہ اختیارات کے من مانے استعمال اور آئین سے انحراف کو روکا جائے اور قانون کی حکمرانی اور شفاف حصولِ انصاف کو یقینی بنایا جائے۔ موجودہ جمہوری نظام میں عدلیہ جمہوری اور پارلیمانی روایات کی مضبوطی کا باعث ہے۔ عدلیہ نے کبھی بھی انتظامیہ یا مقننہ کے اختیارات سلب نہیں کئے۔ بلکہ یہ ہر ادارے کی آزادی اور وقار کا احترام کرتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ نے ہمیشہ اپنے آئینی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کردار ادا کیا ہے۔ عدلیہ کا کردار انتظامیہ اور مقننہ کے خلاف کام کرنا نہیں بلکہ قانون اور آئین سے ماوراء ہر اقدام میں عدلیہ کو عدالتی نظرثانی کا اختیار حاصل ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وکلاء کے تعاون سے قومی عدالتی پالیسی کے احکامات پر مناسب عمل درآمد سے پرانے اور غیر سنجیدہ مقدمات میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔ اس حوالے سے کافی مقاصد حاصل کئے جا چکے ہیں تا ہم اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عدالتی نظام میں ابھی بھی بد عنوانی، طویل مقدمہ بازی اور ضابطے کی خامیاں ہیں۔ وقت کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں اور ان کے مطابق عدالتی نظام میں بھی تبدیلی آئی۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن ایک ایسا نا سور ہے جو کہ ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک کی عدالتوں میں انصاف کی منصفانہ فراہمی کے عمل میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ غیر جانب داری، دیانتداری اور احتساب کے اعلیٰ معیار پر عمل کرنے سے کرپشن کے مواقع کم کئے جا سکتے ہیں۔ بینچ اور بار باہمی تعاون کرپشن کی مختلف وجوہات کا پتہ لگانے کے بعد ان کے خاتمے کے لئے کوئی راہِ عمل ڈھونڈ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں پُر امید ہوں کہ بار ایسوسی ایشنزقانونی نظام میں موجود کرپشن کی مختلف جہتوں کو ختم کرنے میں عدلیہ کا ساتھ دیں گی تا کہ فوری اور غیر جانب دار انہ عدالتی خدمات فراہم کی جا سکیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ غیر ضروری التواء جیسے مسائل جن کی وجہ سے مقدموں کو نمٹانے میں تاخیر ہوتی ہے عدالتی نظام کے مسائل میں سے ایک ہے۔ خاص طور پر سول مقدمات میں تو فریقین کو سالہا سال اپنا حق حاصل کرنے کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ طویل قانونی چارہ جوئی نہ صرف فریقین کے عدالتی نظام پر اعتماد کو کم کرتی ہے بلکہ ان کو معاشی طور پر بھی متاثر کرتی ہے۔ اس سے مزید متفرق درخواستیں اور عدالتی پیچیدگیوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ ججز اور وکلاء سول اور فوج داری مقدمات کی تکمیل کے لئے ایک ڈیڈ لائن مقرر کرنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد اس برائی کو ختم کر سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 132162
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش