0
Friday 17 Feb 2012 20:37

اڈیالہ جیل سے حراست میں لئے گئے افراد دہشت گرد تھے، سیکیورٹی حکام

اڈیالہ جیل سے حراست میں لئے گئے افراد دہشت گرد تھے، سیکیورٹی حکام
اسلام ٹائمز۔ ایک سیکورٹی عہدیدار نے اڈیالہ جیل سے حراست میں لئے گئے افراد کے معاملے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر نیاز احمد ثاقب، مظہرالحق، شفیق الرحمن، عبدالباسط، عبدالصبور، عبدالمجید، محمد عامر خان، محمد شفیق عرف معاذ، تحسین اللہ، سعید عرب عرف طارق گل اور روز خان عرف فرمان 2007ء میں جی ایچ کیو، حمزہ کیمپ اور2008ء میں کامرہ ائیربیس پر حملوں کی منصوبہ بندی و معاونت کے حوالے سے مرکزی ملزمان ہیں جنہیں مختلف علاقوں سے مختلف اوقات میں گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا لیکن ناکافی شواہد کی بناء پر عدالت نے انہیں رہا کر دیا۔

عدالتی کارروائی کے دوران مذکورہ تمام ملزمان نہ صرف سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل، جج اور دیگر افراد کے خاندانوں کو بھی سزا دینے کی صورت میں خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیتے رہے۔ عہدار کے مطابق ملزمان کو ڈی سی او کے حکم پر 16 ایم پی او کے تحت حراست میں لیا گیا تھا تاہم 28مئی 2010 لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ نے ان کی گرفتاری غیرقانونی قرار دے دی ان افراد کی رہائی کے دن ان کے ساتھی انہیں فاٹا میں اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں لے گئے اور ان کے فاٹا جانے پر پردہ ڈالنے کیلئے ان کے خاندانوں نے سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی اور انہیں لاپتہ افراد قرار دے دیا گیا سپریم کورٹ کے حکم پر فاٹا میں آپریشنز کر کے 20 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں 11 مذکورہ افراد بھی شامل تھے۔

عہدیدار نے کہا کہ گرفتار شدگان کو ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن 2011 ڈی برائے فاٹا/پاٹا کے تحت رکھا گیا جبکہ سپریم کورٹ کے حکم پر جنوری، ستمبر اور دسمبر 2011ء میں سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے گرفتار شدگان سے ان کے خاندانوں کی ملاقاتیں کرائی گئیں جن کا مصدقہ ریکارڈ موجود ہے۔ ذرائع کے مطابق 11 افراد میں سے چار کی ہلاکتیں خالصتاً بیماری کے باعث اور ہسپتال میں ہوئی ہیں اور ان کی لاشیں باوقار طریقہ اور شرعی قوانین کے مطابق ان کے ورثاء کے حوالے کی گئیں اس موقع پر ورثاء سے لاشوں کے پوسٹ مارٹم کیلئے بھی کہا گیا مگر انہوں نے اس سے انکار کیا اور اس حوالے سے حلف پر دستخط کئے جبکہ مر جانے والے جن دو افراد کے لواحقین نے لاشیں لینے سے انکار کیا۔ انہوں نے بھی اس حوالے سے حلف نامے پر دستخط کئے۔

عہدیدار کے مطابق تمام گرفتار افراد حمزہ کیمپ کی بس، جی ایچ کیو اور کامرہ ائیربیس پر حملوں کے مرکزی ملزمان ہیں۔ ڈاکٹر نیاز احمد ثاقب حمزہ کیمپ اور جی ایچ کیو پر حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا تحقیقات پر معلوم ہوا کہ اس حملے کا ٹرائل ایک تجسس پر مبنی فلم کے سواء کچھ نہیں۔ ڈاکٹر نیاز کو سات دسمبر 2007 کو مردان سے حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ راولپنڈی کی علامہ اقبال کالونی کا رہائشی ہے وہ ایک تعلیم یافتہ آدمی ہے اس نے پنجاب یونیورسٹی سے سیاست میں ماسٹر ڈگری حاصل کر رکھی ہے جبکہ اس نے ہیومیو پیتھک کا کورس بھی کر رکھا ہے۔ دوران حراست ڈاکٹر نیاز نے اعتراف کیا کہ اگست 2007 میں اس نے غازی برادرز کے بھتیجے عمر فاروق، مظہر، نفیس اور خالد کے ساتھ مل کر لال مسجد آپریشن کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

عہدیدار نے کہا کہ مظہرالحق اسلام آباد کے سیکٹر آئی نائن کا رہائشی ہے اور امن رینٹ اے کار کے نام پر رینٹ کے کار کا کام کرتا تھا اس نے 1996 میں انتہاء پسند گروپ میں شمولیت اختیار کی اور خالد بن ولید کیمپ میں تربیت حاصل کی جبکہ وہ کالعدم تنظیم کیلئے بھی کام کرتا رہا جہاں اس کا رابطہ ڈاکٹر نیاز سے ہوا۔ لال مسجد آپریشن کے دوران ڈیرہ سے اسلحہ لانے میں عمر فاروق کی مدد کی مظہرالحق نے حمزہ کیمپ پر حملے میں ڈاکٹر نیاز اور اس کے ساتھیوں کی مدد کی اسے 28 مارچ2008 کو حراست میں لیا گیا تھا۔ سیکورٹی عہدیدار کے مطابق شفق الرحمن کو 24 نومبر 2007 کو حراست میں لیا گیا تھا وہ مردان کا رہائشی ہے۔ 1999ء میں شفیق الرحمن نے دہشت گردی کا راستہ اختیار کیا اور بعدازاں ایک گروپ میں شمولیت اختیار کی 2007 میں اس نے بیت اللہ محسود سے ملاقات کی جس نے اس کے ساتھ دو خودکش حملہ آور راولپنڈی بھیجے جن میں سے ایک کو جی ایچ کیو اور دوسرے کو حمزہ کیمپ کو نشانہ بنانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔

عہدیدار کے مطابق محمد عامر خان راولپنڈی کا رہائشی ہے جسے 2008میں کوئٹہ سے حراست میں لیا گیا۔ 2000ء میں اس نے افغانستان میں اسلحہ چلانے کی تربیت حاصل کی جس کے بعد وہ مزار شریف میں لڑتا بھی رہا جہاں رشید دوستم کے دستوں نے اسے پکڑ لیا اور جیل بھیج دیا گیا جہاں اس نے تین سال گزارے جس کے بعد اسے پاکستان کے حوالے کر دیا گیا۔ محمد عامر خان نے 2007 میں جی ایچ کیو اور حمزہ کیمپ کی بس پر حملے میں ذاتی طور پر حصہ لیا۔ عہدیدار نے کہا کہ گرفتار افراد میں شامل عبدالمجید، عبدالباسط اور عبدالصبور تینوں بھائی لاہور کے علاقے اچھرہ کے رہائشی ہیں بنیادی طور پر وہ کوہاٹ سے تعلق رکھتے ہیں ان افراد کے لال مسجد کے لوگوں سے رابطے رہے اور لال مسجد کے اندر ہونے والی سرگرمیوں میں ملوث رہے جبکہ یہ افراد دیگر دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہونے علاوہ جی ایچ کیو اور حمزہ کیمپ حملوں میں بھی ملوث تھے ان افراد کو 27 اور 29 نومبر 2007 کو لاہور سے حراست میں لیا گیا۔

عہدیدار کے مطابق گرفتار افراد میں شامل محمد شفیق کو 20 جنوری2008 میں کامرہ کمپلیکس میزائل حملے میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا جنوری 2007 سے وہ اکھوڑہ خٹک کے حقانیہ مدرسہ میں پڑھتا رہا اور ستمبر 2007 میں وہ میران شاہ گیا جہاں اس نے تربیت حاصل کی تربیت حاصل کرنے کے بعد افغانستان کے صوبہ پکتیا چلا گیا وہ 50 روز تک وہاں مقیم رہا واپسی پر وہ ایک دہشت گرد گروپ کا متحرک رکن بن گیا اور 14جنوری 2008 میں کامرہ کمپلیکس میزائل حملے میں ملوث تھا۔ 

عہدیدار کے مطابق گل روز خان عرف فرمان بھی کامرہ کمپلیکس حملے میں ملوث تھا جسے 21 جنوری 2008 کو صوابی کے علاقے چھوٹا لاہور سے گرفتار کیا گیا وہ صوبائی کے گاؤں نبی کا رہائشی ہے۔ ذرائع کے مطابق سعید عرف حسین بھی کامرہ کمپلیکس حملے میں ملوث تھا جسے 21 جنوری2008 میں صوابی کے علاقے چھوٹا لاہور سے ہی گرفتار کیا گیا۔ عہدیدار کے مطابق گرفتار افراد میں شامل تحسین اللہ بھی کامرہ میزائل حملے میں ملوث تھا جسے 15 جنوری 2008 کو جہانگیرہ صوابی روڈ سے گرفتار کیا گیا جبکہ وہ نوشہرہ کی آرمر کالونی کا رہائشی ہے وہ 2000 سے اکھوڑہ خٹک میں جامعہ حقانیہ میں تعلیم حاصل کرتا رہا اور دہشت گردی کی دیگر سرگرمیوں میں بھی ملوث رہا۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ان افراد کو عدالت کے روبرو پیش کیا گیا تھا۔ 

خبر کا کوڈ : 138513
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش