0
Saturday 25 Feb 2012 09:54

پشاور ایک مرتبہ پھر دہشتگردوں کے نشانہ پر!

پشاور ایک مرتبہ پھر دہشتگردوں کے نشانہ پر!
اسلام ٹائمز۔ ۲۰۰۱ء میں دہشتگردی کیخلاف شروع ہونے والی نام نہاد جنگ میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان برداشت کرنے والے صوبہ خیبر پختونخوا میں امن اب تک بحال نہیں ہو سکا، دہشتگرد مسلسل اپنی مزموم کارروائیوں کے ذریعے بے گناہ شہریوں اور سیکورٹی فورسز کے جوانوں کو نشانہ بنانے میں مصروف عمل ہیں، خیبر پختونخوا حکومت کے اعلٰی اراکین کی جانب سے کئے جانے والے اس دعوے پر کوئی شک نہیں کہ صوبہ میں گذشتہ ۹ ماہ میں قائم رہنے والی امن وامان کی صورتحال ۵سالوں کے دوران پیش آنے والے دہشتگردی کے واقعات کے تناظر میں قدر بہتر ہے، تاہم اس (گذشتہ ۹ماہ کی) صورتحال کو کسی طور پر بھی تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ سال ۲۰۱۱ء کے دوران صوبہ خیبر پختونخوا میں ساڑھے پانچ سو سے زائد افراد دہشتگردی کی بھینٹ چڑھے۔

خیبر پختونخوا میں جاری رہنے والی دہشتگردی کا سوات کے بعد سب سے زیادہ نقصان پھولوں کا شہر کہلانے والے پشاور نے اٹھایا، اس شہر کا شائد ہی کوئی ایسا بازار، سڑک، موڑ یا علاقہ ہو جو دہشتگردوں کی بربریت کی داستان نہ سنا رہا ہو، مساجد، امام بارگاہوں، سرکاری عمارتوں، فورسز کے مراکز اور حتٰی کہ تعلیمی اداروں کو بھی نہیں بخشا گیا، گذشتہ ۹ ماہ کے دوران پشاور کے حالات ماضی کے مقابلہ میں قدرے بہتر رہے، تاہم گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے ایک مرتبہ پھر دہشتگردوں نے پشاور پر اپنی منحوس نظریں گاڑھ لی ہیں، دہشتگردی کی اس نئی لہر میں پہلے بعض کالعدم تنظیموں نے اپنی مخالف کالعدم تنظیموں کو بم دھماکوں سے نشانہ بنایا، اس کے علاوہ پولیس چوکیوں اور موبائل گاڑیوں پر بم حملے کئے گئے، ان دھماکوں میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں تاہم بارودی مواد کا زیادہ استعمال نہ ہونے کے باعث کسی ایک دھماکہ میں زیادہ جانی نقصان نہیں، ہوا، لیکن دو روز کے دوران پشاور میں پیش آنے والے ۲ دلخراش واقعات نے شہریوں کو ایک مرتبہ پھر تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، کوہاٹ اڈہ اور کوتوالی تھانہ میں ہونے والے دھماکوں میں ۲۰ افراد جاں بحق جبکہ ۵۰ سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

پشاور میں ۲۴ گھنٹوں میں دو بڑے ہولناک دھماکے ہوئے، پہلا دھماکہ جمعرات کے روز کوہاٹ روڈ پر واقع بس سٹینڈ میں ہوا، جس میں ۱۶ افراد جاں بحق جبکہ ۴۰ سے زائد زخمی ہو گئے، اس دھماکہ میں متعدد گاڑیوں کو شدید نقصان بھی پہنچا تھا، جبکہ جمعہ کے روز شرپسندوں کی جانب سے پشاور شہر کے گنجان آباد علاقے میں واقع تھانہ کوتوالی (سی ڈویژن) پر ۳ خودکش حملوں کے نتیجے میں ایس ایچ او سی ڈویژن منور خان اور دیگر ۳ پولیس اہلکاروں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اس دھماکہ کے کچھ دیر بعد رنگ روڈ پر بارودی مواد نصب کرنے والا شرپسند دھماکہ ہونے کے نتیجے میں زخمی ہوا، یکے بعد دیگرے بم دھماکوں کے پیش نظر صوبہ بھر میں سیکورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے، اور صوبہ بھر میں شرپسند عناصر اور مشتبہ افراد پر کڑی نظر رکھنے کے احکامات بھی جاری کر دیئے گئے ہیں جبکہ مشتبہ افراد کی گرفتاری کیلئے سر چ آپریشن کو مزید وسعت دینے اور شہری علاقوں کے تمام داخلی راستوں پر مشکوک گاڑیوں کی سخت چیکنگ شروع کر دی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق کوتوالی تھانہ پر حملہ کے بعد پولیس حکام کا ایک ہنگامی اجلاس پولیس لائنز پشاور میں طلب کیا گیا، جس میں سیکورٹی صورتحال کا ازسر نو جائزہ لیا گیا، اجلاس میں آئی جی پولیس خیبر پختونخوا محمد اکبر خان ہوتی نے پولیس حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنا انٹیلی جنس نیٹ ورک مزید موثر اور فعال بنائیں اور سیکورٹی پلان میں پائی جانے والی کمی کو دور کر کے ہر قسم کی ممکنہ دہشت گردی کے واقعات کو بروقت ناکام بنائیں، آئی جی پی نے واضح کیا کہ پولیس کو ملازمت اور غفلت میں سے ایک کو چھوڑنا ہو گا اور کسی بھی وقوعہ میں پولیس کی غفلت پر متعلقہ ایس پی کو ذمہ دار ٹھرا کر اُن سے باز پرس کی جائیگی، صوبائی پولیس سربراہ نے پولیس عمارتوں کے تحفظ کے لئے تیار کئے گئے اسٹینڈنگ آپریٹنگ پروسیجر پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنانے، ناکہ بندیاں مزید موثر بنانے اور ماتحت اہلکاروں کو فرائض کی ادائیگی کے دوران بلٹ پروف جیکٹس لازمی پہننے کی ہدایت کی۔

دریں اثناء جمعہ کے روز صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے تھانہ سی ڈویژن کوتوالی پر دہشتگردوں کے حملے کو بزدلانہ کارروائی قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی کارروائیوں سے سیکورٹی اہلکاروں کے حوصلے پست نہیں ہو سکتے، تھانہ کوتوالی پر حملہ سیکورٹی لیپس نہیں بلکہ پولیس اہلکاروں نے بروقت اقدامات کرتے ہوئے دہشتگردوں کا بہادری سے مقابلہ کیا، جس کی وجہ سے کم جانی نقصان ہوا، کیونکہ اس وقت تھانے میں ۳۷۲ کے قریب پولیس اہلکار موجود تھے، انہوں نے بتایا کہ دہشتگردوں نے حملے میں دستی بم استعمال کیے، دہشتگردوں نے حساس علاقے کو نشانہ بنایا ہے، اس لئے اس واقعہ کی ہر زاویہ سے تحقیقات کی جائیں گی، انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان سے لگتا ہے، تاہم مکمل تحقیقات کے بعد صورتحال واضح ہو جائے گی کہ اس میں کون ملوث ہے۔

خیبر پختونخوا کے گورنر بیرسٹر مسعود کوثر نے دہشتگردی واقعات کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دھماکے بذات خود اس میں ملوث عناصر کی مایوسی ظاہر کر رہے ہیں، دہشتگردوں کو قانون کے حوالے کرنے اور متاثرہ خاندانوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی، انہوں نے کہا کہ نہ صرف زخمیوں کو بہترین سہولیات فراہم کی جائیں بلکہ متاثرہ خاندانوں کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کیلئے بھی ہر ممکن قدم اٹھایا جائے، دوسری جانب وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا نے حالیہ دھماکوں کو قبائلی علاقوں پر ہونے والے امریکی ڈرون حملوں کا ردعمل قرار دیا ہے، دہشتگردی کے ان پے در پے واقعات نے پشاور کے عوام کو ایک مرتبہ پھر تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، تاہم حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ کوششوں اور عوام کے بھرپور تعاون کے علاوہ حکومتی پالیسیوں پر نظرثانی کر کے دہشتگردی کے فتنہ کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 140549
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش