0
Saturday 31 Mar 2012 01:31

کراچی حالات کے ذمہ دار حکومت اور اتحادی ہیں، لوڈ شیڈنگ کیخلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ہوں، نواز شریف

کراچی حالات کے ذمہ دار حکومت اور اتحادی ہیں، لوڈ شیڈنگ کیخلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ہوں، نواز شریف
اسلام ٹائمز۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ و سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے ایک بار پھر حکومت اور ان کے اتحادیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی کے حالات کے ذمہ دار حکومت اور ان کے اتحادی ہیں، پنجاب کے حالات خراب کرنے کی ذمہ دار بھی وفاقی حکومت ہے۔ اگر حکومت گزشتہ چار سالوں میں عوام کو ریلیف دیتی تو صورت حال مختلف ہوتی۔ حکومت نے سوائے عدلیہ سے لڑنے کے اور کچھ نہیں کیا۔ بیس بیس گھنٹے بجلی بند رہنے پر لوگ احتجاج نہ کریں تو کیا کریں؟ لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے عوام کے ساتھ ہوں، یہاں عدلیہ کے فیصلوں پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ بیس سال پہلے کوئی عسکری ونگ نہیں تھا لیکن آج ٹارگٹ کلنگ کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ہیں اور مسلم لیگ (ن) واحد جماعت ہے جس کا کوئی عسکری ونگ نہیں۔ 31 مارچ کو احتجاج کا دن جائز ہے، وفاقی حکومت صوبے کے ساتھ نا انصافی کرے گی تو صوبے کا وزیراعلی نوٹس لے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے خانیوال میں سابق پارلیمانی سیکرٹری آفتاب ڈاہا کے انتقال پر تعزیت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

مسلم لیگ (ن)کے سربراہ نے کہا کہ کراچی کے حالات خطرناک حد تک بگڑ چکے ہیں۔ آئے دن قتل و غارت ہو رہی ہے جبکہ گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ (ن)کے کارکن کو بھی کراچی میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ حکومت کہتی ہے کہ پاکستان کے مسائل ٹھیک ہیں۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ پر قابو پا لیا گیا ہے لیکن مجھے نظر نہیں آرہا۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی کی صورت حال پر ازخود نوٹس لیا تھا تو سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ کراچی میں سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ہیں جو ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے زمانے میں کسی بھی جماعت کے عسکری ونگ نہیں تھے ٹارگٹ کلنگ نہیں تھی۔ تھانوں کا نام و نشان نہ تھا یہ تمام باتیں تو ہم گزشتہ بیس سالوں سے ہی سنتے آرہے ہیں عوام بے زار ہوگئی۔ معصوم عوام کو پیسوں کی خاطر اغوا کر لیا جاتا ہے یہاں قانون کی عملداری نہیں ہو رہی اور میں سمجھتا ہوں کہ جس ملک کا قانون کمزور پڑ جائے اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہاں عدلیہ کے فیصلوں پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ کراچی کے حالات کی ذمہ دار وفاقی حکومت اور اس کے اتحادی ہیں، عوام ان سے جواب مانگے گی۔ میاں نواز شریف نے کہا حکومت لوڈ شیڈنگ کے مسئلوں پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ موجودہ مسائل پر کوئی توجہ نہیں ہے سب سے زیادہ لوڈ شیڈنگ صوبہ پنجاب میں کی جا رہی ہے۔ پنجاب کے حالات کی ذمہ داری بھی وفاقی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے اور اگر وفاقی حکومت کسی صوبے سے نا انصافی کرے گی تو صوبے کا وزیراعلی نوٹس تو لے گا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں بیس گھنٹے لوگوں کے گھر لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اور جس کے گھر بیس بیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوگی وہ کہاں جائے گا۔ صنعتیں بند ہوگئی ہیں۔ ہسپتالوں میں بجلی کے باعث تنگی ہے، سکول اور دفاتر بند ہو رہے ہیں لیکن حکومت کو خیال ہی نہیں آتا اور میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ احتجاج کرتے ہیں وہ بالکل ٹھیک کر رہے ہیں۔ مجھے لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے ہمدردی ہے اور اس حوالے سے جو 31 مارچ کو احتجاج کا دن منا یا جا رہا ہے وہ جائز ہے۔ حکومت اگر پچھلے چار سالوں میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے اقدامات کرتی ہے تو آج صورت حال مختلف ہوتی حکومت اپنی کارکردگی بتائے۔

مسلم لیگ صد کا ہنا تھا کہ ملک کیلئے کیا کیا سوائے عدالتوں سے لڑنے، ریلوے، پی آئی اے سمیت تمام اداروں میں کرپشن کرنے کے موجودہ حکومت نے ملک کو قرضوں میں ڈبو دیا ہے۔ گزشتہ چالیس سالوں کی شرح دیکھی جائے تو آج کی شرح میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے اور حکومت نے اپنا ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب پر میاں نواز شریف نے کہا کہ آئندہ جو بھی حکومت آئے گی اس کے پاس الٰہ دین کا چراغ نہیں ہوگا کہ آتے ہی مسائل حل ہو جائیں گے۔ مسائل حل ہونے میں وقت لگے گا اور پھر آہستہ آہستہ صورت حال بہتر نظر آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اگر ان کو بجلی دے رہا ہے تو انہیں لے لینی چاہیے۔ مجھے دکھ ہوتا ہے کہ1998ء اور 99ء میں ملک میں لوڈ شیڈنگ کا نام نہیں تھا ہم اپنی ضروریات پوری کر کے اپنی وافر بجلی بھارت کو دینے کے بارے میں سوچ رہے تھے لیکن آج ہم بھارت سے بجلی لینے پر مجبور ہیں۔ میاں نواز شریف نے اپنے حوالے سے کہا کہ اگر ہماری حکومت کو ختم نہ کیا جاتا تو آج ملک ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا۔ ہمارے دور میں موٹر وے بنائی گئی اور آج موٹر وے بنائی جاتی تو تمام صوبے اکٹھے ہوتے اور میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے جو سڑکیں بنائی وہ خون پسینے کی کمائی سے بنائی تھیں کسی سے بھیک نہیں مانگی۔

نواز شریف نے پرویز مشرف کے حوالے سے سوال پر کہا کہ یہ سب مسائل مشرف کے دیئے ہوئے تحفے ہیں اور اس میں حکومت نے بھی کوئی کمی نہیں کی بلکہ ان میں اضافہ کیا ہے۔ بعدازاں رحیم یار خان کے علاقے بھونگ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہاکہ صدر یاوزیراعظم بننا نہیں بلکہ ملک کو بچانا ترجیحی ہے دنیا کا ہر مسئلہ ملک میں موجود ہے پاکستان کو چلانے کیلئے نیت اور سوچ صاف ہونی چاہیے۔ نواز شریف نے کہاکہ بجلی کی کمی کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے صنعت، زراعت سمیت تباہ شعبے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں بارہ سال پہلے ملک کا یہ حال نہیں تھا اس وقت پاکستان خوشحال تھا پاکستان کو نظر لگ گئی ہے میرا مقصد خود کو وزیراعظم بنانا نہیں بلکہ پاکستان کو بچانا ہے ان کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا بارہ سال قبل پاکستان بھارت کو بجلی سپلائی کرنے کا سوچ رہا تھا جبکہ آج بھارت پاکستان کو بجلی دینے کی پیشکش کر رہا ہے آج پاکستان مشکل میں گھرتا چلا جارہا ہے بھارت سو کروڑ سے زائد آبادی والا ملک ہے جبکہ ہماری آبادی اٹھارہ کروڑ ہے کتنے افسوس کی بات ہے کہ سو کروڑ آبادی والا ملک اٹھارہ کروڑ آبادی والے ملک کو بجلی دینے کی پیشکش کر رہا ہے ان بارہ سالوں میں کتنا فرق آ چکا ہے کہ بجلی دینے والا آج لینے کا محتاج ہے اس وقت پاکستان کی کرنسی بھارت سے بھاری تھی آج بالکل الٹ ہو گیا ہے ترقی کی رفتار بھی الٹی ہو گئی ہے اس وقت بھارت کا وزیراعظم نواز شریف سے صلح کرنے چل کر پاکستان آیا پرویز مشرف جو اپنے آپ کو کمانڈو کہنے والا مکے بنا کر قوم کو دکھاتا تھا مگر امریکہ کی ایک فون کال پر ڈھیر ہو گیا مگر ہمیں ایٹمی دھماکوں سے روکنے کیلئے دنیا بھر سے کئی کئی ٹیلی فون کال آئیں مگر ہم ٹس سے مس نہ ہوئے ہم نے وہی کیا جو پاکستانی قوم چاہتی تھی۔

نواز شریف نے کہاکہ اگر آج بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ملکی معیشت قرضے لے کر اور اسٹیٹ بینک نوٹ چھاپ کر چلائی جا رہی ہے جتنے نوٹ چھاپے جائیں گے اتنی ہی ملک میں مہنگائی بڑھے گی موجودہ حکمران کرپشن میں سرتا پائوں ڈوبے ہوئے ہیں سپریم کورٹ کا حکم نہیں مانا جارہا سوئس حکومت کو خط لکھنے کا بار بار سپریم کورٹ حکم دے چکی ہے مگر وزیراعظم خط لکھنے کیلئے تیار نہیں ہیں مگر ہمارے وزیراعظم سکول جا کر بچوں سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا میں خط لکھوں یا نہیں اگر سپریم کورٹ کا کہنا مانتا ہوں تو پھانسی پر چڑھتا ہوں اور اگر صدر کا کہنا مانتا ہوں تو صرف چھ ماہ کی سزا ملتی ہے وزیراعظم بچوں سے پوچھتے ہیں کہ کیاں میں پھانسی کی سزا قبول کروں یا چھ ماہ کی سزا قبول کر لوں؟۔
خبر کا کوڈ : 149230
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش