QR CodeQR Code

پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب نہیں پیپلز پارٹی سرائیکستان

2 Apr 2012 03:50

اسلام ٹائمز: اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں خطاب کے دوران وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ کہنا کہ انتظامیہ یونٹ انگریز بنایا کرتے تھے ہم علیحدہ سرائیکی صوبہ بنائیں گے، بے شک اس کا ہیڈ کوراٹر بہاول پور کو بنا دیا جائے، ہم وزیر اعظم کی اس سوچ، جذبے اور فراغ دلی کو سلام پیش کرتے ہیں، جغرافیائی اور محل وقوع کے لحاظ سے ملتان صوبائی ہیڈ کوراٹر کے لیے مناسب جگہ ہے۔


رپورٹ:سید محمد ثقلین 

اسلام ٹائمز۔ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا جنوبی پنجاب کی تنظیم کا قیام ایک نہایت ہی خوش آئند عمل ہے، ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ٹیکسٹائل مخدوم شہاب الدین کو جنوبی پنجاب (سرائیکستان) تنظیم کا پہلا صدر نامزد کیا گیا ہے، ان کی نامزدگی پر لوگوں کا ردعمل اور رائے میرا آج کا موضوع نہیں ہے، مخدوم شہاب الدین بردبار اور ٹھنڈے مزاج کے سیاست دان ہیں، اکثر لوگوں کا خیال تھا اور ہے کہ مخدوم شہاب الدین تنظیم کو صحیح اور پرجوش انداز میں نہیں چلا سکیں گے، تنظیم کے قیام کے بعد خاصا عرصہ خاموشی کی وجہ سے لوگوں کا یہ خیال مزید پختہ ہوتا چلا گیا۔ تنظیم کے قیام کے فوری بعد لوگوں کے ذہنوں میں جو سوال ابھرا یا پیدا ہوا اس کا جواب دینے کے لیے بھی کوئی تیار نہ تھا۔
 
خود پیپلز پارٹی کے لوگوں کو بھی یہ علم نہ تھا کہ نئی تنظیم کا حدود اربعہ، دائرہ اور ایریا کہاں تک ہے؟ کسی نے کہا کہ نئی تنظیم پورے سرائیکی وسیب پر مشتمل ہو گی، کسی نے بتایا کہ تنظیم صرف تین ڈویژنوں یعنی بہاول پور، ڈیرہ غازی خان اور ملتان پر مشتمل ہو گی، تنظیم کے نامکمل ہونے کی وجہ سے یہ بات واضح نہیں ہو رہی تھی کہ آیا صحیح اور درست صورت حال اور حقیقت کیا ہے۔ مخدوم شہاب الدین کی مخصوص مسکراہٹ لوگوں کو بہت کچھ بھلا دیتی ہے، خاصا عرصہ تک تنظیم کے مکمل نہ کیے جانے پر ہر طرف سے اعتراضات اور خدشات کا اظہار کیا جانے لگا کہ پیپلز پارٹی نے سرائیکی وسیب کے عوام کو محض لارا لگایا ہے، پیپلز پارٹی کے جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کے نعرے کو بھی لوگوں نے سبز باغ دکھانے کے مترادف عمل کہنا شروع کر دیا۔
 
اکثریت اس خیال پر متفق و متحد تھی کہ پیپلز پارٹی والے یہ نعرہ صرف اور صرف مسلم لیگ ن کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس پورے عرصے کے دوران پیپلز پارٹی خاص طور پر وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے اتار چڑھائو، بدلتے رویئے، ڈوبتے تیرتے بیانات، ہچکولے کھاتی سوچ، سیاسی مصلحت کی گرم اور ٹھنڈی ہوائوں نے جو اثرات مرتب کیے، کئی لوگ اسے مداری کا کھیل تصور کرنے لگے۔ خیر اب پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کی تنظیم بھی مکمل کر لی گئی ہے اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور ان کی ٹیم بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے، اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں خطاب کے دوران وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ کہنا کہ انتظامیہ یونٹ انگریز بنایا کرتے تھے ہم علیحدہ سرائیکی صوبہ بنائیں گے، بے شک اس کا ہیڈ کوراٹر بہاول پور کو بنا دیا جائے، ہم وزیر اعظم کی اس سوچ، جذبے اور فراغ دلی کو سلام پیش کرتے ہیں۔ 

جغرافیائی اور محل وقوع کے لحاظ سے ملتان صوبائی ہیڈ کوراٹر کے لیے مناسب جگہ ہے، وزیر اعظم کی جانب سے بہاول پور کو سرائیکی صوبے کا ہیڈ کوراٹر بنانے کی آفر کے بعد صوبہ بحالی کے لیے کام کرنے والے چند لوگوں کو اپنی ہٹ دھرمی سے باز آ جانا چاہیے تاکہ تخت لاہور سے جلد از جلد چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے، جو لوگ اس آس اور امید پر بہاول پور صوبہ بحالی کے نعرے لگاتے پھرتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور میاں برادران انہیں صوبہ بحال کر کے تھالی میں رکھ کر پیش کریں گے، یقینا وہ غلطی پر ہیں اور دھوکہ کھانے جا رہے ہیں۔ 

انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے اور اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ بعض استحصالی قوتیں سرائیکی صوبہ تحریک کو کمزور کرنے اور اس کا راستہ روکنے کے لیے سرائیکی وسیب کو تقسیم کر کے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنا چاہتے ہیں، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مسلم لیگ ن پنجاب اسمبلی میں جمع کروائی جانے والی علیحدہ صوبے اور بحالی صوبہ بہاول پور کی قرار دادوں پر بحث کروانے سے کیوں مسلسل بھاگ رہی ہے، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی اس بات میں جو انہوں نے بہاول پور میں کہی بڑا وزن ہے کہ اگر مسلم لیگ ن والے صوبہ بحالی میں مخلص ہیں تو پنجاب اسمبلی سے اس کی قرار داد پاس کروائیں۔ 

ہم پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کی تنظیمی اور سرائیکی صوبہ موومنٹ پر بات کر رہے تھے، تنظیم کے قیام کی طرح یہ بات بھی بڑی خوش آئند ہے کہ سرائیکی خطے کی تنظیم میں جدید سرائیکی بھائیوں یعنی پنجابی سپیکنگ حضرات کو بھی بھر پور انداز میں اس کا حصہ بنایا گیا ہے، اس پازیٹو عمل کا نتیجہ ہے کہ آج سائوتھ پنجاب تنظیم کے جنرل سیکرٹری ملک محمد عامر ڈوگر سیکرٹری اطلاعات چودھری شوکت بسرا اور ان کے دیگر ساتھی کھل کے جنوبی پنجاب نہیں صوبہ سرائیکستان کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں۔ 

پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم شہاب الدین نے کپاس کے کاشتکاروں اور کاٹن جنرز کو جو زخم لگایا ہے اس پر ہم پھر کبھی تفصیل سے علیحدہ بات کریں گے، فی الوقت ہم وہ بات کرنے جا رہے ہیں جو اس وقت کروڑوں سرائیکی عوام کے ذہنوں میں ایک بڑے خدشے کی شکل میں موجود ہے، پیپلز پارٹی کی تنظیم مکمل کرنے پر پتہ چلا ہے کہ یہ صرف تین ڈویژنوں پر مشتمل ہے، جس میں بہاول پور، ملتان اور ڈیرہ غازی خان شامل ہیں، سرائیکی وسیب کے کئی اہم اضلاع میانوالی، خوشاب، بھکر، جھنگ ،ساہیوال، پاکپتن، سرگودھا وغیرہ اس میں شامل نہیں کیے گئے، اسی طرح خیبر پختون خوا کے سرائیکی اضلاع ڈیرہ اسمعیل خان اور ٹانک کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔ 

وسیب کے لوگ صرف بارہ اضلاع پر مشتمل صوبہ سرائیکستان نہیں بلکہ مکمل سرائیکی جغرافیہ اور حدود اربعہ پر مشتمل صوبہ سرائیکستان چاہتے ہیں۔ 26 مارچ کو پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب تنظیم کا پہلا باقاعدہ اور بڑا اجلاس جنوبی پنجاب کے ہیڈ کوارٹر ملتان میں منعقد ہوا، جس میں صرف بارہ اضلاع کی تنظیموں کو بلایا گیا، نظر انداز کیے جانے والے دوسرے اہم اضلاع پر عوام میں کئی قسم کی چہ مگوئیاں ہونا شروع ہونا گئی ہیں۔
 
اگر ن لیگ بہاول پور بحالی والوں کی حمایت کر کے سرائیکی وسیب کو تقسیم کرنے کا گناہ کر رہی ہے تو پیپلز پارٹی سرائیکی وسیب کے مذکورہ بالا اضلاع کو نظر انداز کر کے کیا پیغام دے رہی ہے، نیکی کرنی ہے تو پوری خشوع و خضوع کے ساتھ کی جائے، ہم امید کرتے ہیں کہ 26مارچ کو ہونے والے اہم اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رہنما نظر انداز کیے جانے والے طرز عمل کو نظر انداز کیا جائے، عوام کی خواہش کے مطابق تنظیم کا نام پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کی بجائے پیپلز پارٹی سرائیکستان رکھا جائے، اس حوالے سے ہمیں جنرل سیکرٹری ملک محمد عامر ڈوگر سے خاصی امیدیں وابستہ ہیں۔


خبر کا کوڈ: 149577

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/149577/پیپلز-پارٹی-جنوبی-پنجاب-نہیں-سرائیکستان

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org