0
Sunday 15 Nov 2009 15:24

امریکہ اسرائیل اختلافات کا ڈرامہ

امریکہ اسرائیل اختلافات کا ڈرامہ

اگرچہ کچھ مغربی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے یہ کوشش کی ہے کہ امریکی صدر براک اوباما اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے درمیان ہونے والی تازہ ملاقات کو ایک غیردوستانہ اور تناو والے ماحول میں انجام پانے والی ملاقات کے طور پر ظاہر کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی رپورٹس فریبکارانہ ہیں اور دونوں رہنماوں کے درمیان اختلافات ایک نوراکشتی کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ اس دوران اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے یہ دعوی کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے ان دو رہنماوں کے درمیان انجام پانے والی میٹنگ انتہائی ناآرامی کا شکار رہی ہے حتی کہ جب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو میٹنگ سے باہر آئے تو غصے سے انکے ہونٹ اور ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اس اسرائیلی میڈیا کے

مطابق اوباما نے اس میٹنگ میں کوشش کی کہ نیتن یاہو کو باادب کرے اور اسکو سمجھائے کہ وہ امریکی صدر کی مخالفت نہ کریں اور جو بیانات وہ بل کلنٹن کے دورہ صدارت میں دیتے تھے اور اسرائیل کی طرف سے واشنگٹن کو جلا دینے کی دھمکیاں دیتے تھے، ان کا تکرار نہ کریں۔ اسی طرح گویا اس ملاقات میں اوباما نے خلاف معمول نیتن یاہو کا پہلے جیسا خیر مقدم بھی نہیں کیا اور آخر میں میٹنگ کو ترک کرتے وقت اسے اسکورت بھی نہیں کیا۔ وہ چیز جو ان اختلافات کی بنیاد بتائی جاتی ہے وہ نیتن یاہو کی جانب سے براک اوباما کے اس مطالبے کو نظرانداز کرنا ہے جس میں اسرائیل سے کہا جاتا ہے کہ وہ فلسطینی حکومت کے ساتھ مفاہمت کیلئے مثبت قدم اٹھائے اور خاص طور پر یہ کہ یہودی بستیوں کی تعمیر
کو روکے۔ ان سب چیزوں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے درمیان دکھائے جانے والے اختلافات واقعیت نہیں رکھتے اور وہ افراد جو ان اختلافات کو دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں بہت سادہ لوح اور تل ابیب واشنگٹن کے دو طرفہ روابط کی بنیاد سے ناواقف ہیں۔ اس بات پر واضح ترین دلیل کہ امریکا کبھی بھی تل ابیب کی مخالفت میں اس حد تک آگے نہیں بڑھ سکتا جو اسرائیل پر حاکم صہیونیستوں کی ناراضگی پر منتج ہو، مقبوضہ فلسطین کے دورے اور نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا تازہ ترین بیان ہے جس میں اس نے انتہائی گستاخانہ انداز میں یہ کہا کہ اوباما انتظامیہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ یہودی بستیوں کی تعمیر کو روکنے کے موضوع پر کسی قسم کا
اختلاف نہیں رکھتی اور واشنگٹن ہر گز مقبوضہ فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو مکمل طور پر ترک کر دینے کا خواہاں نہیں رہا ہے۔ دراصل جیسا کہ رژیم صہیونیستی کے 60 سالہ وجود نے بھی یہ ظاہر کیا ہے کہ امریکی حکام چاہے وہ جس سطح کے بھی کیوں نہ ہوں اس بات کے پابند ہیں کہ ایک ریڈ لائن کا لحاظ رکھیں، اور وہ ریڈ لائن ہر حال میں رژیم صہیونیستی کے مفادات کی مراعات کرنا ہے، اور یہ ایسی حقیقت ہے جس کو ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن جو سوال یہاں پر جنم لیتا ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت امریکی اور اسرائیلی رہنماوں کے درمیان اختلافات کو اتنا واضح کر کے پیش کیوں کیا جا رہا ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ ان کو اتنا کیوں اچھال رہے ہیں؟۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی حکومت
اس کوشش میں مصروف ہے کہ اوباما انتظامیہ کو دوسری گذشتہ امریکی حکومتوں سے مختلف اور اسرائیل اور فلسطین کی نسبت بے طرف ظاہر کرے۔ یہ ایک انتہائی گھٹیا اور پست سیاست ہے جو چلی جا رہی ہے تاکہ اسکے سائے میں صہیونیستی لابی اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کر سکے۔ ان کا پہلا ہدف یہ ہے کہ براک اوباما کو صلح کا حامی ظاہر کر کے فلسطین اور عرب ممالک کے باشندوں کا اعتماد حاصل کر سکیں، اسی طرح انہیں بے ارزش قسم کے ظاہری وعدے دے کر مذاکرات کی میز پر لا سکیں اور اپنے خیال میں مسئلہ فلسطین کو کسی طرح سے خاتمہ دے سکیں۔ ان کا دوسرا ہدف یہ ہے کہ مشرق وسطی کے اصلی مسئلے کو یہودی بستیوں کی حد تک محدود کر دیں اور بالآخر اگر اسرائیل یہودی بستیوں کی تعمیر کو روک دینے
پر تیار ہو بھی جاتا ہے تو اسکو مشرق وسطی کے امن کیلئے ایک بڑی پیشرفت اور عربوں کیلئے ایک بڑا طرہ امتیاز بنا کر پیش کر سکیں۔ بہر حال وہ چیز جس سے ایسی پالیسیاں بنانے والے بے خبر ہیں یہ ہے کہ خطے کی قومیں اور فلسطینی عوام ایسے ہتھکنڈوں سے پوری طرح واقف ہیں اور ایسی سیاسی ڈرامہ بازیوں کے دھوکے میں نہیں آتیں۔ فلسطینی قوم کیلئے یہودی بستیوں کی تعمیر کو روکنا یا اس طرح کے دوسرے مسائل اصلی اہداف شمار نہیں کئے جاتے بلکہ وہ اپنے تمام چھینے گئے حقوق جن میں فلسطین کی تمام سرزمین کی آزادی بھی شامل ہے، کی بازیابی کے خواہاں ہیں۔ اسی طرح انہوں نے سالہای سال کی جدوجہد سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے تمام تر حقوق کی دستیابی کے بغیر آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔

خبر کا کوڈ : 15055
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش