0
Sunday 15 Nov 2009 13:26

ایٹمی ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے امریکا کا اسپیشل اسکواڈ پاکستان پہنچ گیا،امریکی صحافی

ایٹمی ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے امریکا کا اسپیشل اسکواڈ پاکستان پہنچ گیا،امریکی صحافی
کراچی:معروف امریکی صحافی سیمور ہرش نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں ایٹمی ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے امریکا کا خصوصی اسکواڈ پاکستان پہنچ چکا ہے،پولٹزر انعام یافتہ امریکی صحافی نے جیو کے پروگرام ”میرے مطابق“ میں ڈاکٹر شاہد مسعود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی ٹیم میں سی آئی اے،ایف بی آئی اور محکمہ توانائی کے ماہرین شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹیم اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں یا شہر کے کسی اور حصے میں ہر لحظہ تیار ہے،اور اگر وہاں بغاوت ہوتی ہے جس کا ہمیں خدشہ ہے تو پاکستان کی جانب سے مدد کیلئے پکارے جانے پر ہم اس کا تحفظ کریں گے۔ پروگرام میں پاکستانی صحافی شاہین صہبائی،سابق سفارت کار شمشاد احمد خان اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ حمید گل نے بھی اظہار خیال کیا۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے جنرل حمید گل نے کہا کہ اس خبر کے بہانے امریکا پاکستان میں کارروائی کرنا چاہتا ہے اور نئی دہلی کو خطے میں سپر پاور کا کردار دلوانا اس کا مقصد ہے۔پروگرام کے میزبان ڈاکٹر شاہد مسعود نے معروف امریکی صحافی سیمور ہرش کے مضمون میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے لرزا دیتی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سیمور ہرش کے ہولناک انکشافات کے مطابق جہاں ان کا یہ کہنا تھا کہ کچھ دن پہلے جب پاکستان کے ایک ایٹمی ہتھیار کمپوننٹ کے لاپتہ ہونے کی اطلاع اسلام آباد کے امریکی سفارتخانے کی جانب سے ہنگامی طور پر امریکا کے میری لینڈ ہوائی اڈے پر موجود اینڈریو ایئربیس پر ایک خصوصی دستے تک پہنچائی گئی تو فوری طور پر وہ اسکواڈ یا ٹیم پاکستان روانہ ہوئی پھر اسے 11 ہزار 264 کلو میٹر کا فیصلہ طے کر کے دبئی پہنچنے کے بعد یہ بتایا گیا کہ وہ حساس اطلاع یا انٹیلی جنس رپورٹ جس پر کارروائی کے لئے امریکا سے روانہ ہوئے تھے وہ اطلاع غلط تھی، 16 گھنٹے کی پرواز کے بعد یعنی دبئی سے اسلام آباد کا سفر 1726 کلو میٹر یعنی محض پونے تین گھنٹے کا رہ گیا تھا۔اس موقع پر سیمور ہرش نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ معاف کیجئے گا کہ مجھے مداخلت کرنی پڑے گی یہ کہنے کے لئے کہ یہ ماہرین کا ایک دستہ تھا جو بحران حل کرنے آرہا تھا وہ ہٹ اسکواڈ نہیں اور جو دوسرا یونٹ جس کے بارے میں، میں نے لکھا کہ اسپیشل جوائنٹ آپریشن کمانڈر ان کا مقصد ہٹ اسکواڈ نہیں حالانکہ وہ کافی سخت جان سپاہی ہیں بہت تجربہ کار لیکن مقصد ہٹ اسکواڈ نہیں مقصد ہے کہ وہ تیار رہیں اور اس صورتحال میں مجھے بتایا گیا تھا کہ بحران کی صورت میں آپ کی نیوکلیئر تنصیبات پر ہم آپ کی مدد کے لئے موجود تھے اگر آپ طلب کرتے،مگر وہ ہٹ اسکواڈ نہیں۔ڈاکٹر شاہد مسعود ایک اور سوال پر سیمور ہرش نے کہا کہ اس رپورٹ کا سب سے خوفناک پہلو یہ تھا جس پر بہت زیادہ بحث نہیں ہوئی کہ غلط اطلاع 15 گھنٹے تک اپنی جگہ موجود رہی اس خصوصی اسکواڈ کو اس قدر دور امریکا سے متحدہ عرب امارات تک لایا گیا یہ فورس اگر چند گھنٹے اور اپنی جگہ برقرار رہتی اور اس کی تردید نہ ہو پاتی تو پھر یہ خصوصی اسکواڈ یا ٹیم کیا کرنے کا ارادہ رکھتی تھی اور یہاں یہ سوال بھی ذہنوں میں پیدا ہوا کہ خصوصی اسکواڈ کہیں دور امریکن سرزمین پر میری لینڈ میں موجودگی کے بجائے آس پاس جیسا کہ پہلے میں نے کہا کہ ہمارے اردگرد موجود کسی امریکی فوجی اڈے پر موجود ہوتا اور 15، 16 گھنٹوں تک یہ غلط حساس اطلاع اپنی جگہ برقرار رہتی تو اس کا کیا نتیجہ سامنے آتا،اب سیمور ہرش نے اپنی تازہ ترین گفتگو میں اس حوالے سے مزید جو کچھ بیان کیا ہے اس حوالے سے موجود خدشات میں کہیں زیادہ اضافہ کرتے اس تمام معاملے کی انتہائی سنگینی کا اظہار کر رہا ہے۔سیمور ہرش جنہوں نے میری لینڈ سے روانہ ہوتی جس ٹیم خصوصی اسکواڈ کا تذکرہ چند ماہ پہلے کسی حوالے سے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کیا تھا اب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ٹیم یا اسکواڈ ان کے خیال میں کہیں پاکستان یا کہیں ہماری سرزمین پر ہی موجود ہے۔سیمور ہرش نے کہا کہ یقینا اس کا فوری جواب موجود ہے لیکن میں اس سے ایک قدم آگے بڑھتا ہوں یہ ٹیلر فیسٹ کہلاتا ہے۔ میری خواہش تھی کہ یہ اچھے کاموں کی طرف جائے،اگر آپ کو معلوم ہو تو آپ باآسانی انہیں اپنے آس پاس ڈھونڈ سکتے ہیں،یہ وہ فورس ہے جو کسی بھی قسم کے نیو کلیئر سے تعلق رکھتے واقعہ،کسی بھی دہشت گرد،یا دہشت گردی سے تعلق رکھتے عناصر کے لئے ہے،جو افراد،مرد و خواتین میرے خیال سے اس پر کام کرتے ہیں ان میں نہ صرف اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے لوگ جو بغاوت کے خلاف لائحہ عمل تیار کرتے ہیں بلکہ سی آئی اے ، ایف بی آئی اور اسپیشل آپریٹر بھی شامل ہیں، یہ سب ایک ہی طرح کام کرتے ہیں ان کو نازک حالات میں چار گھنٹوں کے اندر رپورٹ کرنی ہوتی ہے تاکہ وہ فوری ہدف کی طرف جا سکیں۔اس اطلاع پر ان کو بھیجا گیا جو بعد میں غلط ثابت ہوئی ، اطلاع تھی کہ پاکستان میں شاید کوئی نیو کلیئر ہتھیار غائب ہو گیا ہے یہ امریکا کے لئے نہایت تشویشناک خبر تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ ایک سوال کہ میں اس بارے میں سوچ رہا تھا ایسا لگ رہا ہے کہ یہ وہ ٹیم ہے جو اس پرزے کو ڈھونڈے گی یا پوری ایٹمی تنصیبات پر قبضہ کرے گی؟ یا وہ کوئی دوسرا گروہ ہو گا؟ کے جواب میں سیمور ہرش نے کہا کہ وہ ایک ہنگامی ضرورت کے تحت کام کرنے والا گروہ ہے جو کافی عرصے سے وہاں موجود ہے میں یقینی طور سے نہیں کہہ سکتا مگر آٹھ سال پہلے 9/11 کے بعد میں نے نیویارکر میں ایک اور گروہ کا ذکر کیا تھا جس کی تشکیل 90ء کے آخر میں پینٹاگون میں ہوئی تھی اس میں کم از کم دو گروہ ملوث ہیں اور میرے خیال سے انرجی ڈپارٹمنٹ کا ایک گروہ علیحدہ سے بھی موجود ہے جو مختلف کام کرتا ہے، ہمارے پاس کافی گروہ موجود ہیں جن کی ذمہ داری ہے کہ اس قسم کے نیو کلیئر سے متعلق ہنگامی صورتحال کو دیکھیں جو گروہ دبئی گیا تھا اور آگے نہیں گیا وہ اسپیشل گروہ تھا جو کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ماتحت ہے جس گروہ کے بارے میں،میں لکھ رہا ہوں وہ ہنگامی صورتحال میں کام کرتا ہے،میرا خیال ہے کہ وہ ملک کے اندر موجود ہیں اسلام آباد میں یا امریکی سفارتخانے میں یہ ہر لمحہ تیار گروہ ہے جس کا مشن ہے کہ حادثے کی صورت میں پاکستان میں اور میں یہ بات نہیں کر رہا کہ پاکستانی طالبان قبضہ کر لیں گے ایسا ہونے والا بھی نہیں،ہاں اگر وہاں بغاوت ہو جاتی ہے جس کا ہمیں خدشہ ہے عملی طور پر بھی ہو سکتا ہے اور نہیں بھی وہ وہاں موجود ہیں،کہ اگر پاکستان کو مدد کی ضرورت ہو وہ ہمیں مدد کے لئے پکار سکتے ہیں یہ ہمارے لئے بہت اہم ہے کیوں اس لئے کہ ہم اس کا تحفظ کریں گے اور بھارت سے کہیں گے کہ ہم اندر موجود ہیں اور ہمارے پاس کچھ حد تک رسائی بھی موجود ہے ہم آپ کو ضمانت دیتے ہیں کہ ہم حالات پر قابو پا سکتے ہیں۔ اپنی افواج کو پاکستانی سرحد سے پیچھے لے جاؤ تا کہ پاکستان اپنی کچھ فوجی دستوں کو بھارتی سرحد سے ہٹا کر وزیرستان اور سوات بھیج سکے۔ ایک اور سوال کہ آپ کا مضمون پڑھنے سے ایک تاثر یہ بھی ملتا ہے کہ اوباما افغانستان میں موجود فوجیوں کی تعداد بڑھانے یا انخلا کے بارے میں فیصلہ لیں گے فوج نے اس کے اثرات پر کیا ردعمل ظاہر کیا ہے؟ پر سیمور ہرش نے کہا کہ آپ کو نتیجے کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں پاکستان کے اوپر دباؤ بڑھانے کی کہ وہ وزیرستان میں ہم وطنوں پر کارروائی کرے یہ اس کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے، اس کا ردعمل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر روز وہاں بم دھماکے ہو رہے ہیں، ایک سب سے دہلا دینے والی بات یہ بھی ہے کہ مثال کے طور پر انہوں نے کچھ دھماکے امریکی پینٹاگون کے مساؤ آرمی ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں کئے اور انہوں نے سڑکوں پر جنرل کو نشانہ بنایا ظاہر ہے کہ ان کو معلوم تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے کہاں ہو گا اور ظاہر ہے آرمی ہیڈ کوارٹر کے بارے میں اندر کی معلومات ان کو حاصل تھی ۔ سیمور ہرش کی گفتگو کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ سیمور ہرش کا کہنا ہے کہ اس تمام میں صرف پینٹاگون ہی نہیں امریکی سی آئی اے،ایف بی آئی،امریکی محکمہ دفاع،محکمہ خارجہ اور محکمہ توانائی بھی ملوث ہے،یہاں تنازع یہ نہیں کہ کیا پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں یا نہیں؟ یا پھر یہ کہ کیا ہمارا اپنا ایٹمی نظام مربوط ہے یا نہیں،بحث اس بات پر ہے کہ کیا ہم نے کسی غیر ملکی سپر پاور کو ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کی ذمہ داری کا معاہدہ کیا ہے یا پھر ماضی میں ایسا کوئی واقعہ ہماری حکومت یا حساس اداروں کے علم میں ہے کہ کوئی خصوصی اسکواڈ ہمارے اثاثوں کی سیکورٹی کمپرومائز کے ہونے کی اطلاع پر غلط اطلاع پر اتنی دور سے دوڑا چلا آرہا تھا اس پر احتجاج ہوا؟ اور آئندہ اگر ہمیں کبھی احتجاج کا بھی موقع نہ ملا،سیمور ہرش کہتے ہیں کہ یہ اسکواڈ اب پاکستانی سرزمین پر ہے تو کیا یہ بات غلط ہے یا درست؟ یہ کوئی ایسا انہونی واقعہ،خبر یا انکشاف نہیں جسے ہم کسی بھی انداز میں ایک غیر ملکی یہودی صحافی کی سازش کہہ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کریں کیونکہ جو لوگ عالمی ذرائع ابلاغ کی دنیا میں سیمور ہرش کی شخصیت سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ وقتی طور پر تمام تر ہوتی روایتی تردیدوں کے باوجود سیمور ہرش کی تمام تر اکثر کہانیوں کو وقت اور حالات نے درست ثابت کیا ہے یہی وہ شخص ہے کہ جس نے 16 مارچ 1968ء کو یہ بیان کر کے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا تھا کہ امریکی فوج کے خصوصی دستے نے ویت نام میں ایک 26 سالہ امریکی فوجی افسر ولیم کیلے کے حکم پر 109 بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا تھا اس سانحہ میں ملوث امریکی فوجیوں کو سخت سزائیں دی گئی تھیں اور امریکا سمیت دنیا بھر میں ویت نام جنگ کے خلاف اس رائے عامہ نے جنم لیا تھا جو کہ پھر وہاں سے امریکی فوجیوں کی پسپائی کا سبب بنی تھی پھر مغربی دنیا خصوصاً دنیائے عرب کے لئے مردو جائی ونونو کا نام انتہائی اہم ہے جس نے 1986ء میں پہلی بار برطانوی پریس کے ذریعے دنیا کے سامنے اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کی تفصیلات بیان کیں آپ کو شاید یاد ہو کہ اس اسرائیلی سائنسدان کو اپنے ملک کے راز افشا کرنے کے جرم میں موساد اٹلی سے اغوا کر کے پھر اپنے ملک اسرائیل لے گئی تھی جہاں اس نے 18 سال جن میں سے 11 سال قید تنہائی میں تھے وہ گزارے اور 1991 ء میں اپنی کتاب میں سیمور ہرش نے ہی انکشاف کیا تھا کہ برطانوی جریدے ڈیلی مرر کے ایڈیٹر نیوکلیئر ڈیوس جسے وہ اسرائیلی سائنسدان غلطی سے اپنی حماقت سے اپنے ملک اسرائیل کے خفیہ رازوں سے آگاہ کر رہا تھا اس نے لندن میں اسرائیلی سفارتخانے کو مخبری کر کے ونونو کو پکڑوا دیا کیونکہ ونونو لاعلم تھا کہ وہ جس مد مقابل صحافی ایڈیٹر سے بات کر رہا ہے وہ خود موساد کا اہم اہلکار تھا یہ سیمور ہرش کا ایک مشکل دور تھا کہ جب وہ اپنی کتاب میں اس انکشافات سے پریس کو آگاہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کی خبر یا رپورٹ کوئی شائع کرنے کو تیار نہیں تھا اخبار کے مالک اور انتہائی بااثر شخصیت یعنی رابرٹ میکسوئل نے اپنی ایڈیٹر یعنی ڈیویس نکولس کو ملازمت سے برخواست کردیا اور پھر چند ہی روز بعد رابرٹ میکسوئل کی لاش سمندر میں تیرتی پائی اور پھر 6 نومبر 1991ء کے گارجین اخبار میں پراسرار موت کی کہانی سیمور ہرش کے میکسوئل کے موساد کے ساتھ تعلقات الزامات کے تناظر میں شائع ہوئے کہ آج تک ذرائع ابلاغ اور دنیا کے حساس اداروں کی فائلوں میں موجود ہے۔ پاکستان سے متعلق تازہ ترین رپورٹ سے پہلے سیمور ہرش کچھ دن پہلے سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی کے خصوصی اسیسی نیشن اسکواڈ کے حوالے سے تفصیلات منظر عام پر لا کر امریکی انتظامیہ کی شدید تنقید کا ہدف بن چکا ہے لیکن پاکستان سے متعلق جو کچھ اس نے لکھا اور کہا وہ امریکی تردیدوں سے کہیں زیادہ غور و فکر کا متقاضی ہے اس رپورٹ کے سامنے آنے سے پہلے ملک کے دیگر حصوں میں خصوصاً اسلام آباد میں ایسے دیگر غیر ملکیوں کی آمد اور پراسرار کارروائی میں ملوث ہونے کی اطلاعات آتی رہی ہیں جن کی ابتدائی طور پر بلیک واٹر یا پھر زی سے وابستگی کی خبروں اور سرکاری طور پر تردیدوں کے بعد گورنر پنجاب کے اپنے اخبار میں وزیر داخلہ رحمان ملک کا یہ بیان واضح طور پر شائع ہوا ہے کہ پاکستان میں بلیک واٹر نہیں بلکہ Dyncorp نامی امریکی سیکورٹی فرم کام کر رہی ہے۔ وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیکورٹی کمپنی کو کراچی میں کام کرنے کی اجازت صرف اس بنا پر دی گئی ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کو تحفظ فراہم کر سکے۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے حمیدگل نے کہا کہ میری سیمور ہرش سے پہلی ملاقات کوئی چھ سال قبل ہوئی تھی اس وقت ان کے پاس یہ کہانی تھی کہ سیمور ہرش کو پینٹاگون کے ٹاپ جنرلز کے ذریعے یہ اطلاع حاصل ہوئی ہے کہ پاکستان میں بلوچستان کے ایک علاقہ ٹوبہ کاکڑی میں اسامہ بن لادن موجود ہے اور امریکی فوجی کارروائی کر کے اسامہ بن لادن کو ٹوبہ کاکڑی سے گرفتار کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے امریکی فوجی ایک طیارہ میں سوار تیار بیٹھے ہوئے ہیں اور پرویزمشرف نے انہیں اجازت بھی دیدی ہے اور امریکی فوج کے ذرائع سے سیمور ہرش کو معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں جنرل حمید گل سے اسے مفید معلومات حاصل ہو سکتی ہیں کہ اسامہ بن لادن کی ٹوبہ کاکڑی میں موجودگی کی اطلاعات پر بھروسہ کیا جائے یا نہیں میں نے سیمور ہرش کو مشورہ دیا کہ چونکہ سیمور ہرش ایک عالمی سطح پرنامور جرنلسٹ ہیں آپ برائے مہربانی یہ رپورٹ فائل نہ کریں کیوں کہ میرا خیال میں یہ سب جھوٹ ہے امریکی فوج کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک دفعہ انہیں اس خبر کے بہانے سے پاکستان میں کارروائی کرنے کی اجازت مل جائے تاکہ اس کے بعد وہ روٹین بنالیں اور پھر یہ امریکی فوجی کچھ اور واردات کریں گے۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شمشاد احمد خان نے کہا کہ اگر سیمور ہرش کی پہلی بات صحیح ہے تو یہ ہمارے لئے سنسنی خیز بات ہو گی کہ وہ لوگ پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور ان کے مشن کا تعلق ہماری اسی صلاحیت سے متعلق ہے تو پھر یہ بہت سے شکوک کو جنم دے گا۔ ہماری حکومت اور ذمہ دار حلقوں کا فرض بنتا ہے کہ اس معاملے کی وضاحت کریں،میرے خیال میں عوام کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ شاہن صہبائی نے کہا کہ سیمور ہرش کی رپورٹ میں پاکستان دشمن کوئی بات نہیں ہے لیکن دو تین چیزیں بڑی انٹریسٹنگ ہیں ان کا تھوڑا سا تجزیہ ہونا چاہئے ایک تو اس نے لکھا ہے کہ مشرف صاحب سے ملاقات ہوئی ہے اور یہ مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ وہ جب پاکستان آیا تھا ہمارے لوگوں سے ملا خود صدر صاحب سے وہ دو مرتبہ ملا اس کے بعد جب وہ لندن گیا ہے تو وہاں مشرف صاحب سے ملا مشرف کو اس نے کوڈ کیا ہے ہمارے صدر کے خلاف جو مشرف نے کہا ہے اب یہ بات آپ پوچھیں مشرف صاحب نے کہا کہ صدر زرداری کے He is not patriot یہ بات ایک صدر کے لئے کہنا ایسے لیڈر کے بارے میں پورے پولیٹیکل سسٹم میں انڈیکٹ کر کے این آر او کر کے پاور ہینڈ آور کی انہوں نے ان کے بارے میں یہ کہنا کہ He is not patriot ایک بہت اہم بات ہے جو سیمور ہرش نے کوڈ کی ہے۔
خبر کا کوڈ : 15114
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش