0
Thursday 12 Apr 2012 00:04

شفاف ووٹر فہرستیں۔۔۔شفاف انتخابات

شفاف ووٹر فہرستیں۔۔۔شفاف انتخابات
اسلام ٹائمز۔ پاکستان میں شفاف ووٹر فہرست ہمیشہ ایک خواب رہا ہے، اس کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے گزشتہ 12 سالوں کے دوران نصف درجن بار کوششیں کی گئیں اور اربوں روپے خرچ ہوئے، مگر یہ خواب پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے، جو پوری قوم کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ ماضی کے مختلف ادوار میں بننے والی دستی ووٹر فہرستیں ہمیشہ شک و شبہ سے خالی نہیں رہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے نتیجے میں ہونے والے انتخابات کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا گیا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ دھاندلی سے قائم ہونے والی حکومتوں کے لیے، غیر شفاف ووٹر فہرست مددگار ثابت ہوتی ہے۔ 12 سال قبل شفاف ووٹر فہرستیں بنانے کام شروع ہوا، مگر 12 سال بعد بھی یہ کام مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ اس دوران جہاں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو قسمت آزمائی کا موقع دیا گیا، وہیں چار سال سے نادرا جیسا ادارہ بھی مصروف عمل ہے۔

حال ہی میں معائنے کے لیے 50 ہزار سے زائد ڈسپلے سینٹر میں رکھی گئی ووٹر فہرستوں کے مطابق، اس میں شامل ووٹروں کی تعداد 8 کروڑ 50 لاکھ کے قریب ہے۔ لیکن یہ شفاف ووٹر فہرستیں غلطیوں سے بھری پڑی ہیں۔ الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق نادرا کے تعاون سے تیار ہونے والی ووٹر فہرستوں میں 80 فی صد سے زائد غلطیاں موجود ہیں اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ شفاف ووٹر فہرست کے نام پر دانستہ یا غیر دانستہ 2 کروڑ سے زائد ووٹروں کے نام غلط جگہ درج کرلیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر اپ سیٹ ہونے کا امکان ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ملک بھر سے اس ضمن میں آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ یکم مارچ 2012ء کو سندھ اسمبلی اور خیبر پختونخوا اسمبلی، بعد ازاں 9 مارچ 2012ء کو ایک مرتبہ پھر سندھ اسمبلی میں اس کی بازگشت سنائی دی ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ووٹ کی معلومات کے لیے ایس ایم ایس سروس شروع کی ہے، جس سے 7 مارچ 2012ء تک تقریباً 50 لاکھ افراد نے اپنے ووٹ کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذرائع کے مطابق ان کو ملنے والی شکایات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ووٹر فہرستوں میں 80 فی صد سے زائد غلطیاں ہیں، جن کی درستگی میں 6 ماہ سے زائد کا عرصہ درکار ہوگا اور نادرا کے تعاون سے بننے والی ان ووٹر فہرستوں میں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، فاٹا اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے 3 سے 4 کروڑ افراد جو کاروبار، ملازمت یا دیگر مقاصد کے تحت اپنے آبائی علاقوں کی بجائے دیگر علاقوں میں موجود ہیں، ان میں سے اکثریت کا اندراج دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ان کے موجودہ مقام کی بجائے مستقل ایڈریس پر کردیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اب وہ کلیم فارم کے ذریعے درستگی کے بغیر، اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکیں گے اور کلیم فارم کے ذریعے درست اندراج بھی مشکل مرحلہ ہے۔

اس ضمن میں الیکشن کمیشن کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایسے افراد کی تعداد 2 کروڑ سے زائد ہوسکتی ہے، جب کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ اندراج کے حوالے سے بھی شکایات کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ 9 مارچ 2012ء کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں سندھ کے وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے انکشاف کیا کہ ان کے حلقے سیہون کے 7069 ووٹ صوبہ بلوچستان کے ضلع کھچ میں درج کیے گئے ہیں اور یکم مارچ 2012ء کو رکن سندھ اسمبلی انور مہر علی خان نے ایوان میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ان کا اپنا نام ووٹ فہرست میں نہیں ہے۔ اس ضمن میں دیگر ذرائع سے بھی بڑے پیمانے پر شکایتیں موصول ہورہی ہیں۔ جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام ( ف )، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ( ن ) اور دیگر جماعتیں بھی شدید تحفظات کا اظہار کررہی ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ ڈسپلے سینٹرز میں رکھی گئی ووٹر فہرستوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دانستہ یا نادانستہ طور پر ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کو اصل مقام سے ہٹا کر دوسری جگہ درج کیا گیا ہے۔ یہ عمل انتہائی افسوس ناک ہے جس کی وجہ سے 2012ء میں عام انتخابات کا انعقاد نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ عدالتی حکم کے باوجود شفاف ووٹر فہرست کا تیار نہ ہونا یقینا عدلیہ کے احکام پر بھی عدم اعتماد ہے، حالاں کہ نادرا کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ شفاف طریقے سے کام کرتا ہے، لیکن چار سال گزرنے کے باوجود شفاف ووٹر فہرست کا تیار نہ ہونا، اس کی ناکامی کی دلیل ہی سمجھا جا سکتا ہے۔

اس سے قبل 1984ء میں ایک دستی ووٹر فرست مرتب کی گئی تھی، جس کو موجودہ کمپیوٹرائزڈ شفاف ووٹر فہرست کے مقابلے میں زیادہ بہتر قرار دیا جا رہا ہے۔ اسی کی بنیاد پر 1985ء کے غیر جماعتی عام انتخابات ہوئے۔ اس ووٹر فہرست میں چاروں صوبوں، فاٹا اور وفاقی دارالحکومت کے ووٹروں کی تعداد 34992425 بتائی گئی۔ 1987ء میں ووٹر فہرست کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کی گئی اور تیار ہونے والی دستی ووٹر لسٹ کے مطابق 1988ء، 1990ء، 1993ء اور 1997ء میں عام انتخابات ہوئے، تاہم اس دوران اضافے کا عمل جاری رہا جس کی وجہ سے 1988ء میں 46206055 ووٹ، 1990ء میں 47065330 ووٹ، 1993ء میں 50377915 ووٹ اور 1997ء میں 55068024 ووٹ تھے۔

12 اکتوبر 1999ء کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پرویز مشرف نے 2000ء میں شفاف ووٹر لسٹ تیار کرنے کی ہدایت کی۔ جس کی روشنی میں 2000ء میں ہی باقاعدہ کام کا آغاز ہوا اور 1998ء کی مردم شماری فارم کے مطابق ایک ووٹر فہرست 2000ء کے آخر میں تیار کی گئی، لیکن اس میں بڑے پیمانے پر غلطیوں کی وجہ سے اسے ناقابل عمل قرار دے دیا گیا تھا، بعد ازاں اس پر نظر ثانی کرکے 2001ء میں نئی ووٹر فہرست تیار کی گئی جس کے نتیجے میں 2002ء کے عام انتخابات ہوئے۔ اس فہرست میں کل ووٹروں کی تعداد 71913850 تھی۔

مگر 2005ء میں ایک مرتبہ پھر نئی اور شفاف ووٹر فہرست کی تیاری پر کام شروع ہوا۔ کیوں کہ2001ء میں مرتب شدہ ووٹر فہرست پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایک کروڑ سے زائد ووٹوں کا اندراج نہیں ہوا ہے۔ جس کے بعد پھر شفاف ووٹر فہرست کی تیاری کا کام شروع ہوا اور تقریباً دو سال بعد 2007ء میں مکمل ہوا۔ جس کو بے نظیر بھٹو نے عدالت میں چیلنج کیا جس پر عدالت نے رہ جانے والے ووٹروں کے اندراج کا حکم دیا، جس کے نتیجے میں تیار ہونے والی ووٹر فہرست میں ووٹروں کی تعداد 80796382 ظاہر کی گئی اور اسی کی بنیاد پر 2008ء کے عام انتخابات ہوئے، لیکن اس ووٹر فہرست پر بھی شدید اعتراضات ہوئے اور عدالت نے 2009ء میں حکم دیا کہ ووٹر فہرست سے جعلی ووٹروں کا اخراج کرکے شفاف ووٹر فہرست تیار کی جائے۔ جس کی بنیاد پر ایک مرتبہ پھر شفاف ووٹر فہرستوں پر کام شروع ہوا اور اس دفعہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ” نادرا “ کا تعاون حاصل کیا۔ جس کے بعد انکشاف ہوا کہ 2007ء میں تیار ہونے والی ووٹر فہرست میں موجود 37186053 ووٹروں کی تصدیق نہ ہوسکی یا ان کا اندراج ایک سے زائد بار ہوا ہے اور اس طرح 2007ء کی ووٹر فہرست میں سے 44027567 ووٹروں کا اندراج درست قرار دیا گیا۔ دوسری جانب نادرا کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس 36,696,442 ایسے افراد کا ڈیٹا موجود ہے جو ووٹر بننے کے اہل ہیں۔ ان کو شامل کرکے 80724009 ووٹروں کی ایک مجوزہ شفاف ووٹر فہرست تیار کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔

اسی کے نتیجے میں 2011ء میں الیکشن کمیشن پاکستان نے ووٹروں کی تصدیق کا عمل شروع کیا جو کئی ماہ تک جاری رہا۔ اسی عمل کے نتیجے اور نادرا کے تعاون سے تیار ہونے والی مجوزہ کمپیوٹرائزڈ شفاف ووٹر فہرست اب ملک بھر کے 50 ہزار سے زائد ڈسپلے سینٹرز میں رکھی گئی ہے، جو 21 مارچ 2012ء تک آویزاں رہے گی۔ جس میں ووٹروں کی تعداد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 8 کروڑ 50 لاکھ بتائی ہے۔

12 سال کی طویل جدوجہد اور اربوں روپے کے اخراجات کے نتیجے میں تیار ہونے والی ووٹر فہرست میں 80 فی صد سے زائد غلطیوں یا 2 کروڑ سے زاید ووٹروں کے غلط جگہ اندراج کے انکشاف نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا کی اس 12 سالہ کارکردگی کو سوالیہ نشان بنادیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اربوں روپے کے اخراجات کے باوجود دونوں ادارے نہ صرف شفاف ووٹر لسٹ تیار میں ناکام ہوئے بلکہ انہوں نے کروڑوں ووٹروں کی اصلیت ہی بدل دی۔

گزشتہ 12 سال کے دوران شفاف ووٹر فہرستوں کی تیاری میں ناکامی کی اصل وجہ یہ ادارے نہیں بلکہ حکمرانوں کی غفلت، بدنیتی اور عوام کی لاپروائی ہے۔ کہنے کی حد تک الیکشن کمیشن پاکستان ایک آزاد اور خود مختار آئینی ادارہ ہے، لیکن کبھی بھی یہ آزاد رہا اور نہ ہی خود مختار۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات نہ کبھی شفاف ہوئے اور نہ ہی کمپیوٹرائزڈ ووٹر فہرست شفاف بن سکی۔ دراصل الیکشن کمیشن اور نادرا کے کام کرنے کا الگ الگ طریقہ ہے۔ ” نادرا “ درست پتے اور نام کی بنیاد پر ڈیٹا تیار کرتا ہے، جس کے لیے تمام معلومات درست ہونا ضروری ہے اور اسی کے نتیجے میں شناختی کارڈ اور دیگر قانونی دستاویزات تیار ہوتی ہیں۔ نئی کمپیوٹرائزڈ شفاف ووٹر فہرست کے لیے بھی اس نے اسی فارمولے کو اپنایا، جس کی وجہ سے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، فاٹا اور اسلام آباد کے کاروبار، ملازمت یا دیگر مقاصد کے تحت اپنے آبائی علاقوں کی بجائے دیگر علاقوں میں موجود 3 سے 4 کروڑ افراد میں سے اکثریت کا اندراج دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ان کے موجودہ مقام کی بجائے مستقل ایڈریس پر کردیا گیا ہے۔

حالاں کہ ان میں سے اکثریت کا اندراج سابقہ ووٹر فہرستوں میں موجود تھا، ان میں بعض منتخب عوامی نمایندے بھی شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذرائع کے مطابق مستقل ایڈریس کا فارمولا صرف ان لوگوں کے لیے طے ہوا تھا، جن کا پہلے سے ووٹر فہرست میں اندراج نہ ہو، ان کے شناختی کارڈز میں ڈبل ایڈریس بھی موجود ہوں اور تصدیقی عمل میں انہوں حصہ نہ لیا ہو۔ مگر ” نادرا “ نے اس کا اطلاق ڈبل ایڈریس والے اکثر ووٹروں پر کیا اور بیشتر جگہ تصدیقی عمل میں شامل لوگوں کو بھی مستقل ایڈریس پر درج کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک عارضی اور مستقل ایڈریس اور ملک کے اندر نقل مکانی کوئی معنی نہیں ہے۔ ایک ووٹر کے لیے صرف پاکستانی ہونا اور ملک کے کسی بھی حصے میں اس کی موجودگی ضروری ہے اور وہ جہاں چاہے اپنے ووٹ کا اندراج کراسکتا ہے۔ مگر ” نادرا “ کے مستقل ایڈریس کے فارمولے نے دونوں اداروں کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ جب کہ اس سے کمپیوٹرائزڈ شفاف ووٹر فہرستوں کی تیاری کا پورا عمل بھی مشکوک ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے عدالت کے حکم کے مطابق بروقت کمپیوٹرائزڈ ووٹر فہرست، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے امتحان ثابت ہورہی ہے اور ہر طرف سے ڈسپلے سینٹرز میں رکھی گئی فہرستوں کی مدت میں توسیع کا مطالبہ ہو رہا ہے۔

کروڑوں اغلاط کی درستگی کلیم فارم کے بغیر ممکن نہیں ہے اور یہ عمل بھی عام لوگوں کے لیے صبر آزما ہے، تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ووٹ کے بارے میں معلومات کے لیے ” 8300 “ پر ایس ایم ایس سروس کی طرح، اغلاط کی درستگی اور درست جگہ اندراج کے لیے موبائل سروس یا پھر ٹول فری نمبر کی سہولت فراہم کرنے سے کمپیوٹرائزڈ ووٹر فہرست کو شفاف بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہی عمل ملک میں شفاف کمپیوٹرائزڈ ووٹر فہرست کی تیاری اور شفاف الیکشن کو ممکن بناسکتا ہے ورنہ اربوں روپے کے اخراجات سے تیار ہونے والی کمپیوٹرائزڈ ووٹر فہرست ملک میں نئے بحران کا سبب بنے گی، کیوں کہ سیاسی قوتوں اور عوام کی ایک بڑی تعداد کو ڈسپلے سینٹرز میں موجود کمپیوٹرائزڈ ووٹر فہرستوں میں اغلاط کا فی الحال ادراک نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 152507
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش