0
Wednesday 25 Apr 2012 11:57

اصغر خان کیس، سپریم کورٹ نے وزارت داخلہ کی رپورٹ مسترد کر دی

اصغر خان کیس، سپریم کورٹ نے وزارت داخلہ کی رپورٹ مسترد کر دی
اسلام ٹائمز۔ سپريم کورٹ ميں آئی ايس آئی کی جانب سے سياستدانوں ميں رقوم کی تقسيم کے کيس کی سماعت ہوئی جس ميں عدالت نے مہران بينک اسکينڈل پر وزارت داخلہ کی رپورٹ کو ناقابل قبول قرار دے ديا۔ عدالت نے قرار ديا کہ يہ رپورٹ رحمان ملک کی يادداشتوں پر مبنی ہے جسے قبول نہيں کيا جاسکتا۔ سماعت کے دوران انٹيلی جنس بيورو نے ۲۷ کروڑ روپے کی مبينہ تقسيم کی رپورٹ سربمہر لفافے ميں پيش کی، عدالت نے آئی بی کی رپورٹ پر ڈی جی ايف آئی اے سے بھی جواب طلب کر ليا ہے، عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم ديا کہ ۱۰مئی تک مہران اور حبيب بينک کی رپورٹس پيش کريں۔ آج عدالت کو بتايا گيا ہے کہ ماضی کے سياسی اتحاد آئی جے آئی کے سياست دانوں کو اسٹبلشمنٹ سے رقوم ملنے کے خلاف کميشن رپورٹس مل نہيں سکی۔ نيب کا کہنا ہے کہ سابق صدر مہران بنک يونس حبيب کيخلاف اسکا ريکارڈ بھی نہيں مل رہا۔ چيف جسٹس افتخار محمدچودھری کی سربراہی ميں تين رکنی بنچ نے اصغر خان کيس کی سماعت کی، اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتايا کہ مہران بنک، حبيب بنک سے متعلق ماضی کے کميشن کی رپورٹس ابھی نہيں مليں، داخلہ امور اور قانون کی وزارتوں کو انہيں جلد تلاش کرنے کا کہا ہے۔ چيف جسٹس نے ريمارکس ديئے کہ پرائيويٹ افراد کے پاس يہ رپورٹس ہيں، حتی کہ حامد مير کے پاس رپورٹ ہيں، جب تک مطلوبہ رکارڈ موجود نہيں ہوگا تب تک سماعت بے سود ہوگی، عدالت نے اصغرخان کے وکيل سلمان راجا کو کہا کہ وہ حامدمير کو درخواست کريں کہ وہ کميشن کو رپورٹس ديں۔

چيف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ کميشن رپورٹس گم ہونے پر ايف آئی اے کو کہيں کہ مقدمہ درج کرکے گرفتارياں کرے، عدالت نے پوچھا کہ يونس حبيب ايک کيس ميں سزايافتہ ہو دوسرے پلی بارگين کی رپورٹس کہاں ہيں تو نيب نے بتايا کہ وہ ريکارڈ بھی تلاش کيا جا رہا ہے، جسٹس خلجی عارف نے ريمارکس ديئے کہ تعجب کی بات ہے کہ کمپيوٹر کے دور ميں رپورٹس نہيں مل رہيں۔ اٹارني جنرل نے مہران بنک اسکينڈل پر نصيراللہ بابر کے دور وزارت ميں وزارت داخلہ کی رپورٹ پيش کيں اور کہاکہ نواز شريف کو ۵ کروڑ روپے ادائيگی ہوئی، يونس حبيب نے رقوم کا غلط استعمال کيا، اسد دراني نے بينظيربھٹو کو خط لکھ کر کہا کہ وہ رقوم لينے والوں کا بتانا چاہتے ہيں، وزيرداخلہ نصيراللہ بابر نے ايف آئی اے آفيسر رحمان ملک کو تحقيقات کی ذمہ داری سونپيں اور جرمنی بھيجا، اس وقت خدشہ تھا کہ اسد درانی کا تحريری بيان چوری ہو جائے گا۔ سلمان راجا نے کہا کہ نصيراللہ بابر کے مطابق ادا شدہ رقوم کی رسيديں موجود ہيں، اس ميں جونيجو اور جتوئی کی رسيدوں کا بھی ذکر ہے اور رپورٹ کے مطابق جنرل بيگ کو ۱۹۹۳ء تک رقوم کی ادائيگی ہوتی رہی۔

سلمان راجا نے کہا کہ اسددرانی اور اسلم بيگ کے بيان، کيس کو آگے بڑھانے کيلئے کافی ہيں اس ميں ملوث دو جنرلز کی حد کا تو فيصلہ کيا جا سکتا ہے، چيف جسٹس نے ريمارکس ديئے کہ لوٹی گئی دولت کا کيا بنے گا، تمام معاملات منطقی انجام تک پہنچانا ہوں گے۔ جنرل ريٹائرڈ اسلم بيگ کے وکيل اکرم شيخ نے کہا کہ انکے موکل کا رقم سے لينا دينا نہيں تھا، انکی ذمہ داری اتنی تھی کہ رقم کی درست تقسيم ہو، اس پر چيف جسٹس نے ريمارکس ديئے کہ بطور آرمی چيف، يہ ان کے کرنے کا کام تھا۔ سلمان راجا نے کہا کہ يونس حبيب نے ۱۹۹۱ء ميں ايم آئی اور آئی ايس آئی کو ۱۴۰ ملين روپے بطور عطيہ دیے، يہ سب غلام اسحاق خان، روئيداد خان اور اجلال حيدر زيدي کے علم ميں تھا۔ چيف جسٹس نے ريمارکس ديئے وہ کميشن بنانے کی بجائے ہم کہيں گے کہ اس وقت کے آرمی چيف کيا کر رہے تھے، جسٹس خلجی عارف نے ريمارکس ديئے کہ آرمی چيف کو اپنا ادارہ گندے کھيل کا حصہ بنانے سے انکار کر دينا چاہيئے تھا، کسی کو اختيار نہيں کہ وہ آئين سے باہر ہو کر کام کرے، عدالت نے تقسيم شدہ ۱۴۰ ملين روپے کی تفصيلات اکرم شيخ سے طلب کرليں۔ بعد ازاں کيس کی کارروائی ۱۰مئی تک ملتوی کر دی گئی۔

دیگر ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے آئی ایس آئی کی طرف سے سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے کیس میں وزارت داخلہ کی رپورٹ پیش کر دی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف نے مہران بینک سے پانچ کروڑ روپے لیے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے روبرو اصغرخان کیس کی سماعت جاری ہے۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انہوں نے وزارت قانون اور وزارت داخلہ حکام سے ملاقات کی مگر حبیب بینک اور مہران بینک کمیشن کی رپورٹس نہیں ملیں۔ ان کا کہنا تھا کہ رپورٹس کی تلاش جاری ہے جونہی ملیں گی عدالت میں پیش کر دیں گے۔ اصغرخان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ ایک صحافی نے انہیں فون کر کے کہا کہ اس کے پاس دونوں رپورٹس موجود ہیں۔ جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معلوم ہے کچھ لوگوں کے پاس یہ رہورٹس موجود ہیں، حیرت کی بات ہے رپورٹس حکومت کے پاس موجود نہیں۔ اٹارنی جنرل نے اصغر خان کیس میں وزارت داخلہ کی رپورٹ پیش کردی۔

رپورٹ کے مطابق یونس حبیب نے رقم کا غلط استعمال کیا۔ نواز شریف نے مہران بینک سے پانچ کروڑ روپے لیے اور مہران بینک کے تحلیل ہونے کے بعد اس کی انکوائری بھی کروائی گئی۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ حقائق کی تصدیق کے لیے اس وقت کے ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے رحمان ملک، اس وقت کے اٹارنی جنرل قاضی جمیل اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو عدالت میں طلب کیا جائے۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اسد درانی کا اصل بیان حلفی گمشدگی کے خطرے کے پیش نظر رجسٹرار سپریم کورٹ کے حوالے کر دیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 156355
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش