0
Monday 30 Apr 2012 23:20

سرائیکی صوبے کی حدود اور نام کا مسئلہ 3

سرائیکی صوبے کی حدود اور نام کا مسئلہ 3
تحریر: سید محمد ثقلین 

سرائیکی صوبے کی جاری بحث کے سلسلے میں عجیب و غریب بیانات اور واقعات سامنے آتے رہے ہیں، ان بیانات کے پیچھے جو سوچ کار فرما تھی وہ یہ تھی کہ سرائیکی صوبہ نہ بنے اور سرائیکی وسیب کے لوگوں کو بھی زیادہ سے زیادہ دیر تک غلام رکھا جا سکے۔ آج سے چند ماہ پہلے تک میاں نوازشریف اور شہبازشریف کسی ایک صوبے کے قیام کو گناہ سمجھتے تھے آج وہ کہتے ہیں کہ 14 صوبے بنائیں اس کا مطلب یہی ہے کہ نہ 14 صوبے بنیں گے اور نہ سرائیکی صوبے کی باری آئے گی۔ تخت لاہور کا پچھاڑا ہوا ن لیگ کا باغی شیر مخدوم جاوید ہاشمی کہتا ہے کہ سرائیکی صوبے کا نام پنجند رکھا جائے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ پنجند کس تہذیب، کس ثقافت یا کس قومیت کا نام ہے؟ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی جنوبی پنجاب کا نام لیتے ہیں حالانکہ انہیں علم ہے کہ وسیب کے لوگ پنجاب سے بدترین استحصال کا شکار ہونے کے سبب جس نام کو سخت ناپسند کرتے ہیں اپنے صوبے کے نام کے ساتھ اس کا لاحقہ کیوں لگائیں؟ پھر چوہدری صاحبان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سرائیکی وسیب کے بہت سے اضلاع پنجاب کے جنوب میں آتے ہی نہیں۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کے ایم پی اے سید ناظم شاہ نے صوبہ جنوبی پنجاب کا گروپ تشکیل دیا تھا، وزیراعظم کے صاحبزادے سید عبدالقادر گیلانی اور سابق ایم پی اے جاوید صدیقی جنوبی پنجاب جنوبی پنجاب کی رٹ لگا کر کروڑوں سرائیکی عوام کی دل آزاری کا باعث بنتے رہتے ہیں، ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرائیکی صوبے کے قیام کے سلسلے میں پی پی ہو یا ق لیگ یا کوئی اور جماعت ان کا نہ تو ہوم ورک ہے نہ کسی سے مشورہ کرنا گورا کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں خود سرائیکی وسیب کی تاریخ جغرافیہ اور یہاں بسنے والوں کے جذبات کا احساس ہے۔ 

پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ میں ق لیگ کے چوہدری ظہیر الدین، احمد یار ہراج،  پی پی کے سید ناظم شاہ، اطہر گورچانی اور شوکت بسرا وغیرہ کی طرف سے جنوبی پنجاب صوبہ کے نام سے قرار داد جمع کرائی گئی تھی، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ قومی اسمبلی سے آئین میں ترمیم کر اکر صوبہ جنوبی پنجاب بنوایا جائے، اس سے پہلے بھی ق لیگ نے جنوبی پنجاب صوبے کی تحریک جمع کرائی جو ٹیکنیکل بنیاد پر مسترد ہو گئی۔ جنوبی پنجاب صوبہ سے مراد وہ تین ڈویژن ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان لیتے ہیں، سرائیکی وسیب کے لوگ نہ تو تین ڈویژنوں کا صوبہ قبول کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی انہیں کسی بھی صورت میں صوبے کا نام جنوبی پنجاب قبول ہے۔
 
پی پی کی طرف سے رمضان شریف میں تاریخی اور بہت بڑی خوشخبری کی نوید سنائی گئی تھی۔ اگر وہ خوش خبری یہی ہے تو پھر سرائیکی وسیب کیلئے خوشخبری بڑی نہیں بری ہے، اس پر سرائیکستان قومی کونسل کے پروفیسر شوکت مغل اور سرائیکستان قومی اتحاد کے خواجہ غلام فرید کوریجہ نے کہا ہے کہ وسیب کے لوگ کٹ تو سکتے ہیں مگر اپنی قومی شناخت کا سودا کریں گے اور نہ ماں دھرتی کو تقسیم ہونے دیں گے۔ 

سرائیکی صوبے کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کیلئے طرح طرح کے فتنے اور شوشے سامنے آ رہے ہیں، اس کا آغاز میاں شہباز شریف نے کراچی کو صوبہ بنانے کے مطالبے سے کیا۔ اس کا جواب سندھی قیادت اور ایم کیو ایم کی طرف سے اتنا شدید ملا کہ میاں صاحب کو الفاظ ہی واپس لینے پڑے، بعد ازاں میاں برادران کی جانب سے سرائیکی صوبے کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے بہاولپور بحالی صوبہ کا شوشہ چھوڑا گیا جو کہ اب دم توڑ رہا ہے، سرائیکی وسیب کو لاوارثوں کا خطہ سمجھ لیا گیا ہے اس لیے سب کی طرف سے ملکیت کے دعوے سامنے آ رہے ہیں۔

 اس سلسلے میں تونسہ سے ن لیگ کے ایم پی اے میر بادشاہ قیصرانی نے مطالبہ کیا تھا کہ کوہ سلیمان صوبہ بنایا جائے، پہلے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ ہمارے علاقے کو بلوچستان کے ساتھ شامل کیا جائے، میانوالی سے ن لیگ کے ایک اور ایم پی اے نور نیازی جن کی لاہور سے رشتے داری بھی ہے نے پنجاب اسمبلی میں صوبہ کی قرار داد جمع کرائی۔ اس طرح جنرل ضیاء الحق کی ضیاء لیگ کے بہاولنگر سے ایم پی اے شاہد انجم نے ن لیگ کی حمایت سے صوبہ بہاولپور کی تحریک جمع کرائی، یہ سب کچھ صرف سرائیکی صوبہ تحریک ہی نہیں بلکہ ابھرتی ہوئی سرائیکی قومی شناخت کی تحریک کو روکنے کیلئے کیا جا رہا ہے لیکن یہ مسلمہ اصول ہے کہ جس چیز کو جتنا دبایا جائے وہ اتنی زیادہ طاقت اور شدت سے ابھر کر سامنے آتی ہے۔ 

حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ انہوں نے 1970ء میں بہاولپور صوبہ تحریک کو دبایا تو اس کے وجود سے سرائیکی صوبہ تحریک اور سرائیکی قومیت ابھر کر سامنے آئی۔ اب تخت لاہور کے حکمران منتیں کر رہے ہیں کہ خدا کیلئے کسی طرح بہاولپور صوبہ لے لو مگر سرائیکستان بچالیں لیکن اب یہ ممکن نہیں۔
 
مخصوص سیاست کے خصوصی تربیت یافتہ محمد علی درانی کو سرائیکی صوبہ تحریک کو سبوتاژ کرنے کیلئے بھیجا گیا، انہوں نے غلط بیانیوں کے ذریعے نواب صلاح الدین عباسی کو بھی رسوا کر دیا، وہ بہاولپوری لوگ جو نوابوں کے نام کی مالا جپتے تھے سرائیکی شناخت کا انکار کرنے اور محمد علی درانی کا حامی بننے پر ہزاروں سرائیکی نوجوان ان کے شہر احمد پور شرقیہ پہنچ گئے، انہوں نے نواب صلاح الدین عباسی کے خلاف سخت نعرے بازی کی جو لوگ پہلے نوابوں کے نام چومتے تھے اب ان کے پتلے جلائے جا رہے ہیں، درانی کے ساتھ ان کے بھی پتلے بھی نذر آتش کیے۔
 
سرائیکی وسیب کے نوجوانوں کے جذبات کی شدت کو دیکھتے ہوئے بہاولپور صوبے کے اہم ترین رہنماء رحیم یار خان سے ممبر قومی اسمبلی اور سابق وفاقی وزیر صنعت جہانگیر خان ترین نے بہاولپور صوبے کی حمایت سے دستبردار ہو کر سرائیکی صوبے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ سرائیکی ٹی وی چینل پر بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ، سردار اویس خان لغاری اور اسحاق خاکوانی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صرف سرائیکی صوبہ ہی مسئلوں کا حل ہے، ان کا کہنا تھا کہ صوبہ بننے سے صرف این ایف سی ایوارڈ سے 140 ارب سرائیکی صوبے کو ملے گا جس سے ہم پہلا کام سرائیکی وسیب کی زمینوں کو کمپیوٹزاڈ کرنے، تمام یونین کونسلوں میں ہسپتال کی تعداد عملہ اور ادویات کو دو گنا کرنے اور پرائمری سکول سے لیکر کالج تک تمام تعلیمی اداروں کو دوگنا کرنے کے ساتھ یہ کریں گے کہ کوئی پرائمری سکول ایک یا دوکمروں کا نہ ہو گا بلکہ ہر پرائمری سکول 5 کمروں پر مشتمل ہو گا ان تینوں شعبوں میں ہم پانچ پانچ لاکھ افراد نئے بھرتی کریں گے، اس سے بے روزگاری بھی ختم ہو گی اور سرائیکی صوبہ ایک آئیڈیل صوبہ بھی بنے گا۔ 

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں لاہور کی ترقی پر اعتراض نہیں لیکن وہاں خرچ ہمارے علاقے کے فنڈز ہو رہے ہیں، پنجاب کے بجٹ سے صرف پانچ ارب روپے دیئے جاتے ہیں جو خیرات سے بھی کم ہے، سرائیکی صوبہ ہو گا تو اس کے اپنے وسائل اور اپنا بجٹ ہوگا اور یہاں اتنے وسائل موجود ہیں کہ یہ ملک کا خوشحال ترین صوبہ ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 157824
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش