0
Thursday 3 May 2012 21:20

مقبوضہ کشمیر، گذشتہ 23 سال کے دوران ہونیوالی تمام تحقیقاتی رپورٹس جاری کی جائیں، انجینئر رشید

مقبوضہ کشمیر، گذشتہ 23 سال کے دوران ہونیوالی تمام تحقیقاتی رپورٹس جاری کی جائیں، انجینئر رشید
اسلام ٹائمز۔ نیشنل کانفرنس جموں و کشمیر کے کارکن سید یوسف کی پراسرار ہلاکت کی تحقیقات مکمل کئے جانے کو بھارتی سرکار کی دوہری پالیسی کا ثبوت قرار دیتے ہوئے ممبر اسمبلی انجینئر رشید نے گذشتہ 23 سال کے دوران بنائے گئے تمام تحقیقاتی کمیشنوں کی رپورٹس عام کرنے کا مطالبہ کیا ہے، انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس واقعہ کی مقرر مدت کے دوران تحقیقات مکمل کرنا اچھی بات ہے لیکن ان بے شمار واقعات کے بارے میں سرکار کیا کہتی ہے کہ جن کی تحقیقات کرائے جانے کے اعلانات تو ہوئے لیکن بعد ازاں بات آئی گئی ہوگئی، انہوں نے کہا کہ سرکار اور دیگر متعلقین نے ثبوت دیا ہے کہ وہ سید یوسف کے معاملے میں خاص مقاصد کےلئے فوری تحقیقات کرانا چاہتے تھے جبکہ عام کشمیریوں کے قتل اور اس طرح کے دیگر واقعات کو جان بوجھ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ انجینئر رشید نے ریاستی سرکار اور تحقیقاتی ایجنسیوں سے سوال کیا کہ گذشتہ 23 برسوں کے دوران جو تحقیقات کمیشن بے گناہ نوجوانوں کی ہلاکت کے بارے میں حقائق جاننے کے بارے میں قائم کئے گئے تھے کی رپورٹس کہاں غائب ہوگئیں۔
 
انہوں نے ریاستی سرکار سے پوچھا کہ 11 فروری 2012ء کے دن جب رفیع آباد کی سرزمین کو عاشق حسین کے خون ناحق سے نہلایا گیا تو اس وقت وزیر داخلہ ناصر اسلم وانی، آرمی کے کور کمانڈر حسنین اور ریاستی پولیس کے سربراہ کلدیپ کھڈا کے وعدوں کا کیا ہوا؟ انجینئر رشید نے کہا کہ سید یوسف کی ہلاکت کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ کو بروقت مکمل کرنے سے ریاستی سرکار اور سیکورٹی کا دہرا پن بے نقاب ہوگیا ہے۔ ایم ایل اے انجینئر رشید نے الزام لگایا کہ جب کوئی معصوم غریب شہری کسی وردی پوش سرکاری دہشت گرد کے ہاتھوں قتل کیا جاتا ہے تو سرکار صرف وقت گزاری کے لئے تحقیقاتی کمیشنوں کا اعلان کرتی ہے، انہوں نے مثالیں دے کر کہا کہ اب تک سرینگر کے شہید زاہد فاروق، طفیل متو، سجاد احمد گنائی، بومئی سوپور کے محمد امین تانترے، سوپور کے ناظم رشید شالہ اور دیگر ایسی سینکڑوں رپورٹوں کی فائلیں کہاں غائب ہوگئیں ہیں۔
 
انجینئر رشید نے کہا کہ اگر چہ سید یوسف کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا اور اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ اور ان کے ساتھیوں کو بے گناہ ثابت کرنا تحقیقاتی کمیشن اور سرکار کا فرض ہے لیکن کیا اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ اگر کسی باوثوق سیاسی کارکن کی موت واقع ہوجائے تو اس کا خون عام انسان کے مقابلے میں ازحد درجہ مہنگا اور عام آدمی کی جان کی کوئی قیمت نہیں۔
خبر کا کوڈ : 158433
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش