0
Thursday 24 May 2012 19:10

مجلس مذاکرہ، آئی ایس او کے 40 سال

مجلس مذاکرہ، آئی ایس او کے 40 سال
رپورٹ: نذیر علی ناظر

 22 مئی 1972ء کو لاہور میں قائم ہونے والی آئی ایس او الٰہی سفر میں چالیس بہاریں گذار چکی ہے۔ یوم تاسیس پر ہر سال تجدید عہد کیا جاتا ہے کہ اس کارواں کو آئندہ نسل تک کیسے پہنچائیں۔ کچھ اسی طرح کی کیفیت آئی ایس او کے مرکزی دفتر المصطفٰی ہاوس مسلم ٹاون موڑ پر نظر آئی، جہاں آڈیٹوریم میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن لاہور ڈویژن کے زیراہتمام لاہور میں تنظیم کی 40 ویں یوم تاسیس کی مناسبت سے محفل مذاکرہ منعقد ہوا۔ جس میں سابق مرکزی صدور شوکت علی شیرازی، سرفراز حسین حسینی، فرحان زیدی، عادل بنگش، آئی ایس او کے بانی رہنما علی رضا نقوی، امجد علی کاظمی، سابق سینئر رہنما انجینئر روزی علی، مجلس وحدت المسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی، آئی ایس او کے سابق چیف اسکاﺅٹ شجر عباس اور دیگر نے حصہ لیا، جبکہ کارکنوں کی بڑی تعداد پروگرام میں شریک ہوئی۔ جنہوں نے سینئر تنظیمی ساتھیوں سے ان کے تجربات کی روشنی میں تاریخ سے آگاہی حاصل کی۔

محفل مذاکرہ میں آئی ایس او کی 40 سالہ کارکردگی پر گفتگو کرتے ہوئے شوکت علی شیرازی نے کہا کہ معاشرے میں آئی ایس او کے کارکنوں کا تعلیمی، سیاسی اور مذہبی تمام پہلووں سے کردار قائدانہ ہونا چاہیے اور ان میں شخصی توازن بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس او بحیثیت تنظیم بھی کچھ اسی طرح سے چل رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات لگتا ہے کہ آئی ایس او کسی خاص سمت میں چل رہی ہے۔ جیسے کہ ریلیاں اور مظاہرے ہی آئی ایس او کا کام ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ آئی ایس او ایک سیاسی جماعت ہے، جبکہ کبھی دینی طلبہ تنظیم لگتی ہے۔ لیکن دراصل یہ سب آئمہ معصومین (ع) کی سیرت کی پیروی کی کوششوں کا حصہ ہے۔ 

سرفراز حسین الحسینی نے کہا کہ تنظیم میں ہر سال عہدیدران کی تبدیلی سے نیا خون تنظیم میں آتا ہے۔ لیکن مستقل مزاجی کا مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ البتہ انہوں نے کہا کہ آئی ایس او نے مستقل ادارے بھی تشکیل دے دیئے ہیں، جن کا کام ہر حالت میں جاری رہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 22 مئی 1972ء کو تنظیم لاہور میں قائم کی گئی اور ان چالیس سالوں میں اس الٰہی پلیٹ فارم سے فارغ ہونے والے افراد ہی پاکستان میں اہل تشیع کی مختلف تنظیموں میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ آئی ایس او کا مرکز فعال ہو یا نہ ہو شعبہ جات اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ تنظیمی کام چلتے رہتے ہیں۔ ان میں نشر و اشاعت اور تعلیمی وظائف کے شعبہ جات نمایاں ہیں۔

انجینیر علی رضا نقوی نے کہا کہ آئی ایس او عزاداری سید الشہدا اور خون امام حسین علیہ السلام کے صدقے میں بنی ہے۔ نتیجتاً یہ تنظیم عقیدہ و جہاد کی نہج پر چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عاشورہ جسے روایتی انداز سے منایا جاتا تھا۔ فضائل و مصائب اہل بیت علیہم السلام بیان کئے جاتے اور ماتم کیا جاتا تھا۔ لیکن آئی ایس او نے پاکستان میں نظریاتی عاشورہ کی بنیاد رکھی اور عملی طور پر ثابت کیا کہ ہر روز روز عاشور اور ہر زمین زمین کربلا ہے۔

انجینئر روزی علی نے کہا کہ 90 کی دہائی میں قومی سطح پر پیدا ہونے والے بحرانوں میں بھی آئی ایس او کبھی مایوس نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ محبت اہلبیت (ع)، نظریہ ولایت فقیہ کی پیروی اور انقلابی پروگرام آئی ایس او کو باقی طلبہ تنظیموں سے ممتاز کرتا ہے۔

عادل بنگش کا کہنا تھا کہ آئی ایس او نے پاکستان میں ملت جعفریہ کی سربلندی کے لئے واجب کفائی کے طور پر سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس او نے معاشرتی سطح پر پاکستان میں نظریہ ولایت فقیہہ کو متعارف کروانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

سید امجد علی کاظمی نے کہا کہ 40 سال میں انسان کی سوچ میں بلوغت اور پختگی آجاتی ہے۔ تو 1972ء میں قائم ہونے والی آئی ایس او اب بالغ ہو چکی ہے جو باقی تمام شیعہ تنظیموں سے عمر اور تجربے میں سب سے بڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ تنظیموں، مدارس دینیہ اور سماجی اداروں کا تقابل کریں تو معاشرے کو آئی ایس او نے زیادہ فعال فرزندان توحید عطا کئے ہیں۔ امجد علی کاظمی نے آئی ایس او کے نوجوانوں کو خبردار کیا کہ ایران اور فلسطین کی طرح آنے والے دنوں میں پاکستانی شیعیان حیدر کرار (ع) کو بھی سخت امتحان سے گزرنا ہوگا۔ اس کے لئے آمادگی ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قابل فخر ہے کہ رہبر معظم ولی امرالمسلمین سید علی خامنہ ای نے آئی ایس او کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا۔ 

علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا کہ اسلام ناب محمدی میں کسی قسم کی آمیزش نہیں۔ آئی ایس او بھی خالص اسلام کی معرفت اور شناخت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس او نے اسلام محمدی اور قرآنی تعلیمات کو روشناس کروایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس او نے امام مظلوم کربلا کی پیروی میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی دعوت کو جاری رکھا ہوا ہے۔ علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا کہ آج لوگ نظریات کے جنازے اٹھائے ہوئے بازاروں میں کھڑے ہیں۔ ایسے لوگ تربیت میں پیچھے رہ جاتے ہیں لیکن خود کو اصلاح شدہ سمجھتے ہیں۔ 

مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے آئی ایس او لاہور کے صدر ناصر عباس نے کہا کہ نوجوان اپنی صلاحیتوں کو مصطفوی طریقہ کے مطابق گذارنے کے لئے آئی ایس او میں آتے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس ورثے کو آئندہ نسلوں تک ایمانداری سے پہنچائیں۔ اس موقع پر آئی ایس او لاہور ڈویژن کی کارکردگی پر دستاویز فلم بھی دکھائی گئی۔
خبر کا کوڈ : 165122
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش