0
Thursday 24 May 2012 23:00

بھارتی رابطہ کاروں کی کشمیر رپورٹ منظر عام پر آگئی

بھارتی رابطہ کاروں کی کشمیر رپورٹ منظر عام پر آگئی
اسلام ٹائمز۔ 7 ماہ سے التواء میں رہنے والی بھارتی رابطہ کاروں کی کشمیر رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے، رابط کاروں نے اپنی سفارشات پر مبنی رپورٹ (نیو کمپیکٹ) میں نئی دہلی اور ریاست کے درمیان حل طلب مسائل کو تنازعہ کشمیر کی بنیادی جڑ قرار دیتے ہوئے 1952ء کے بعد ریاست میں نافذ کئے گئے قوانین و ضوابط ازسرنو جائزہ لینے کیلئے آئینی کمیٹی تشکیل دینے کی سفارش کی ہے، 370 دفعہ کی پوزیشن کو برقرار رکھنے اور مستقل بنانے کی حمایت کرتے ہوئے رابطہ کاروں نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس دفعہ میں استعمال کئے گئے لفظ ”عارضی“ کو خارج کردیا جائے، کشمیر رپورٹ میں ’افسپا‘ کی منسوخی پر زور دیتے ہوئے پبلک سیفٹی ایکٹ اور دیگر سخت قوانین کا ازسرنو جائزہ لینے پر بھی زور دیا گیا ہے، رپورٹ میں مرکز سے سفارش کی گئی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف سیاسی مذاکرات کے ذریعہ ہی ممکن ہے، جس میں علیحدگی پسند حریت کانفرنس کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔
 
رپورٹ جاری کرنے کے فوراً بعد وزارت داخلہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ رابطہ کاروں کے نظریات ہیں جن پر حکومت نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے لیکن وہ ان پر بحث کے حق میں ہے، کشمیر میں سال 2010ء کی عوامی ایجی ٹیشن کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی سہ رکنی ٹیم جس میں سینئر صحافی دلیپ پڈگاونکر، ماہر تعلیم رادھا کمار اور سابق انفارمیشن ایم ایم انصاری شامل ہیں کی جانب سے اپنی سفارشات پر مبنی 180 صفحات پر مشتمل رپورٹ جمعرات کو منظر عام پر آئی، سہ رکنی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں بہت سی ایسی سفارشات تیار کی ہیں جن سے ان کے خیال میں جموں و کشمیر میں حالات کو معمول پر لایا جاسکتا ہے جبکہ بنیادی طور پر وہ ریاست کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینے کے حق میں ہیں۔

انہوں نے رپورٹ میں بھارتی حکومت سے سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1952ء کے بعد کشمیر میں لاگو کئے گئے آئین ہند تحت قوانین اور ضوابط کے حوالے سے بھارت کو دوبارہ غور وخوص یا جائزہ لینا چاہئے، انہوں نے کہا کہ ان حل طلب مسائل کی وجہ سے کشمیر میں سیاسی حیثیت پر ابہام پیدا ہوا ہے، رابطہ کاروں نے بھارت سے سفارش کی ہے کہ کشمیر کو دستور ہند کے تحت حاصل خصوصی درجہ برقرار رکھا جائے اور اس کی خود مختاری کو ممکنہ طور پر زک پہنچانے والے تمام مرکزی قوانین پر نظرثانی ہونی چاہیے، دلیپ پڈگاﺅنکر کی سربراہی میں سہ رکنی ٹیم نے اپنی سفارشات پر مبنی رپورٹ میں اس بات کا بھی خلاصہ کیا ہے کہ دو دہائیوں تک جموں وکشمیر میں جاری رہنے والی ”اسلحہ شورش“ تقریباً ختم ہوچکی ہے۔
 
انہوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ انتظامیہ اور قانون پر مبنی حکمرانوں سے عوام کو حد سے امیدیں وابستہ ہیں لیکن موجودہ ادارے عوامی امیدوں پر پورا نہیں اتر پا رہے اور لوگوں کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں ہو پا رہے۔ جس کی بنیادی وجہ بقول انکے شورش ہے، ان کا کہنا ہے کہ مختلف حلقوں سے بات چیت کرنے کے بعد سہ رکنی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وادی کے عوام عزت کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ انہیں ایک موثر حکومت ملے اور ان کے حقوق کا احترام کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 165176
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش