0
Wednesday 6 Jun 2012 11:45

کشمیری خواتین کیخلاف بھارتی مجرمانہ حرکات کی سالانہ رپورٹ منظر عام پر آگئی

کشمیری خواتین کیخلاف بھارتی مجرمانہ حرکات کی سالانہ رپورٹ منظر عام پر آگئی

اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ کشمیر میں حواء کی بیٹی ظلم و تشدد کا شکار ہے کیونکہ گذشتہ 10 ماہ کے دوران 2 ہزار خواتین اور لڑکیوں کو آبرو ریزی، اغواء، دست درازی اور چھیڑ چھاڑ کا نشانہ بنایا گیا، جبکہ ایسی شیطانی حرکات کے مرتکب درجنوں افراد کمزور قوانین کی وجہ سے گرفتار ہونے کے بعد حسب دستور رہائی حاصل کرنے میں کامیاب رہے، قانونی ماہرین اور حقوق نسواں کیلئے سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ عصمت ریزی یا جنسی زیادتیوں کے علاوہ اغواء جیسے سنگین جرائم کی روک تھام کیلئے سخت قوانین بنانے کی فوری ضرورت ہے، کشمیری کمیشن برائے زن کی سالانہ رپورٹ 11۔ 2010ء میں خواتین کیخلاف زیادتیوں سے متعلق دی گئی تفصیل کے مطابق اپریل 2010ء سے مارچ2011ء تک جموں و کشمیر میں 1944 بالغ و نابالغ لڑکیوں اور شادی شدہ خواتین کو آبروریزی، اغواء، دست درازی اور چھڑ چھاڑ کا نشانہ بنایا گیا، مذکورہ رپورٹ میں خواتین کیخلاف جاری مجرمانہ حرکات سے متعلق دئیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 12 ماہ کے دوران انفرادی و اجتماعی آبروریزی کے 210 واقعات رونماء ہوئے، جبکہ اس مدت کے دوران اغواء کے 746، چھیڑ چھاڑ کے 765 اور فقرے کسنے کے227 واقعات ریکارڈ کئے گئے۔

اسٹیٹ کرائم ریکارڈ بیورو کی طرف سے اسٹیٹ ومنز کمیشن کو فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2010ء میں آبروریزی کے 18، اغواء کے 94، دست درازی کے 102 اور چھڑ چھاڑ وغیرہ کے 28 واقعات رونما ہوئے، اس طرح سے مئی 2010ء میں آبروریزی کے 27، اغواء کے 84، دست درازی کے 87اور چھڑ چھاڑ کے 35 جبکہ جون 2010ء میں آبروریزی کے 22، اغواء کے 56، دست درازی کے 123 اور چھڑ چھاڑ کے 32 واقعات ریکارڈ کئے گئے، جولائی 2010ء میں آبروریزی کے 28، اغواء کے 58، دست درازی کے 96 اور چھڑ چھاڑ کے 21 اور اسی طرح اگست 2010ء میں آبروریزی کے 30، اغواء کے 72، دست درازی کے 72 اور چھڑ چھاڑ کے 16 واقعات رونماء ہوئے۔

کے این ایس کے مطابق ستمبر 2010ء میں آبروریزی کے 15، اغواء کے 65، چھیڑ چھاڑ کے 76 اور فقرے کسنے کے 12 واقعات ریکارڈ کئے گئے جبکہ اکتوبر 2010ء میں آبروریزی کے 18، اغواء کے 78، چھیڑ چھاڑ کے 73 اور فقرے کسنے کے 15 واقعات رونماء ہوئے اور اسی طرح سے نومبر 2010ء میں آبروریزی کے 17، اغواء کے 81، چھیڑ چھاڑ کے 83 اور فقرے کسنے کے 17 واقعات رونما ہوئے۔ مذکورہ رپورٹ میں دسمبر 2010ء اور جنوری 2011ء کے دوران خواتین کے خلاف زیادتیوں سے متعلق اعداد وشمار درج نہیں، جبکہ فروری 2011ء میں آبروریزی کے 13، اغواء کے 80، چھیڑ چھاڑ کے 52، فقرے کسنے کے 16 اور اسی طرح سے مارچ 2011ء میں انفرادی و اجتماعی آبروریزی کے 22، اغواء کے 78، چھیڑ چھاڑ اور دست درازی کے 101 اور فقرے کسنے کے 35 واقعات رونما ہوئے۔

اپریل 2010ء سے مارچ 2011ء کے دس ماہ کے دوران خواتین کے خلاف ہونے والی زیادتیوں میں ملوث درجنوں افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور ان سارے واقعات کے سلسلے میں مختلف پولیس تھانوں میں کیس درج کئے گئے، جبکہ کئی ملزمان کے خلاف عدالتوں میں چالان بھی پیش کیا گیا، تاہم کمزور قوانین کی وجہ سے ملزمان ضمانت پر رہائی پانے میں کامیاب ہوگئے، لیکن متاثرہ خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی زندگیاں عمر بھر کیلئے جہنم بن چکی ہیں۔ حقوق انسانی کی پامالیوں اور مختلف نوعیت کی زیادتیوں کا شکار ہونے والی خواتین کے لئے قائم ریاستی کمیشن برائے زن کے ذرائع نے بتایا ہے کہ جب مذکورہ کمیشن کے پاس کوئی متاثرہ خاتون شکایت لیکر آتی ہے تو کمیشن اپنی حدود میں رہ کر اسکی انصاف کی فراہمی سے متعلق سفارش کر دیتا ہے، لیکن انتظامی سطح پر بعد ازاں ان سفارشات کو اکثر و بیشتر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں اکثر متاثرہ خواتین انصاف کی امید چھوڑ کر اپنے گھروں میں ہی بیگانوں اور مظلوموں کی طرح بیٹھ جاتی ہیں۔

ریاستی وومنز کمیشن میں مختلف نوعیت کی زیادتیوں کا شکار ہونے والی خواتین کے کیس لڑنے والی ایک خاتون قانون دان نے بتایا کہ جموں وکشمیر میں آبروریزی، اغواء، چھیڑ چھاڑ اور فقرے کسنے کے مرتکب افراد کو سزا دینے یا دلانے کیلئے خواتین کو کوئی معقول قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے اور اسی وجہ سے شیطانی حرکات انجام دینے کے باوجود بھی بدفطرت لوگ صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ خاتون وکیل نے بتایا کہ عدالتوں میں کیس پہنچ جانے کے بعد گواہوں اور عینی شاہدین کے بیانات قلمبند ہو جانے کے باوجود بھی کیس طول پکڑ جاتا ہے اور پھر ناانصافی کی شکار خواتین اور ان کے رشتہ داروں کو حصول انصاف کیلئے بھی بھاری خرچہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ قانونی ماہرین اور حقوق نسواں کیلئے سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ عصمت ریزی یا جنسی زیادتیوں کے علاوہ اغوا جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد کے خلاف سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ حوا کی بیٹی کو حقیقی معنوں میں تحفظ فراہم کیا جاسکے۔

خبر کا کوڈ : 168492
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش