0
Sunday 24 Jun 2012 08:37

آئی ایس او طلباء کی ایک باوقار تنظیم ہے، علامہ افتخار حسین نقوی

آئی ایس او طلباء کی ایک باوقار تنظیم ہے، علامہ افتخار حسین نقوی
اسلام ٹائمز۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ سید افتخار حسین نقوی نے کہا ہے کہ علماء کی اکثریت شیعہ علماء کونسل کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی کے ساتھ ہے، لیکن یہ کہیں کہ ساری شیعہ قوم اُن کو اپنا لیڈر مانتی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ شیعہ گروپس وجود ہی نہیں رکھتے، شیعہ جماعتیں موجود ہیں، کوئی چھوٹی جماعت ہے تو کوئی ذرا بڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم علامہ حامد موسوی کی جماعت کی بھی نفی نہیں کرسکتے، وہ بھی پاکستان میں موجود ہیں، اس کے بھی کافی تعداد میں حامی لوگ موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام شیعہ گروپوں کی نسبت آغا ساجد کی مثال ایک باپ کی سی ہے اور وہ سب سے بالادست ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے سے چھوٹوں کو اپنے ساتھ نہ ملائیں، اس لئے وحدت کی ہمیشہ ضرورت ہے اور آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ علامہ سید ساجد نقوی پاکستان میں تمام شیعہ گروپوں کو اپنے ساتھ ملائیں، جیسا کہ ان کا ہمیشہ رویہ رہا ہے۔

علامہ افتخار حسین نقوی کا کہنا تھا کہ سوچ اور سلیقہ کا اختلاف ہوتا ہے اور اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیئے، مجلس وحدت مسلمین کے علماء بھی ہم سے ہیں، جنہوں نے قم سے تعلیم حاصل کی ہے، اس سے پہلے یہ علماء آئی ایس او میں تھے۔ علامہ افتخار نقوی کا کہنا تھا کہ اگرچہ اُن کے اس جملے سے بعض افراد ناراض ہوئے ہیں لیکن وہ ایک بار پھر اسے دہراتے ہیں کہ آئی ایس او ہمارے طلبہ کی ایک باوقار تنظیم ہے، انہوں نے طلبہ کے اندر بہت سی خدمات سرانجام دی ہیں، جب سے آئی ایس او یونیورسٹیوں میں قائم ہوئی، شیعہ طلبہ کا اپنا ایک تشخص بنا، کیونکہ اس سے پہلے شیعہ طلبہ مختلف غیر دینی جماعتوں میں جاتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے شیعہ طلباء علامہ ساجد نقوی کو اپنا مذہبی لیڈر تو مان لیں گے، لیکن سیاست میں انہیں اپنا سیاسی لیڈر ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں، کیونکہ سیاسی میدان میں تو وہ پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں یا مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔ لہٰذا ہم انہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ سیاسی میدان میں بھی انہیں ضرور اپنا قائد مانیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ انقلاب اسلامی ایران کا ثمر ہے کہ نوجوانوں طلبہ میں دینی تعلیم کی طرف رجحان ہوا اور کثیر تعداد میں لوگوں نے اپنی انجینیئرنگ اور ڈاکٹریٹ کی پوسٹ چھوڑ کر یا اپنی دیگر تعلیمی پوسٹیں چھوڑ کر قم میں دینی تعلیم حاصل کی، اور اب واپس آکر کوئی مدرسہ چلا رہا ہے تو کوئی آزاد کام کر رہا ہے، بہت ساروں نے تو تبلیغی سیٹ اپ بنائے ہوئے ہیں، اگرچہ مجھے اچھی طرح یاد نہیں لیکن یہ کوئی تقریباً چھوٹے چھوٹے دس بارہ گروپ بنتے ہیں جو مل بیٹھے ہیں، جن میں آئی ایس او، آئی او، اصغریہ اور اس قسم کے کوئی بیس اکیس گروپ بنتے ہیں، جنہوں نے ملکر ایک مشترکہ کونسل بنائی ہے اور اس کونسل کے تحت مجلس وحدت مسلمین کے عنوان سے ایک جماعت بنائی ہے۔
 
شیعہ جماعت تحریک جعفریہ اور اس کے بعد اسلامی تحریک پر ریاستی اداروں کی جانب سے پابندی ہے، ہر ایک کا اپنا نکتہ نظر ہے، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اختلاف نظر نہیں ہے اور پھر علامہ ساجد نقوی سے ان کی کوئی ہم آہنگی نہیں ہو رہی تھی، اس بنا پر انہوں نے مجلس وحدت مسلمین کے عنوان سے اپنی الگ جماعت بنا لی ہے۔

علامہ افتخار نقوی کا کہنا تھا کہ ہماری مجلس وحدت مسلمین سے یہ خواہش ہے، آرزو ہے اور درخواست ہے کہ وہ کام کریں، کام کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں، پاکستان ایک وسیع میدان ہے، لیکن دوسرے کسی کی توہین نہیں ہونی چاہیئے، ایم ڈبلیو ایم کے ذمہ دار افراد بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ آغا ساجد نقوی کی توہین نہیں کرتے اور اُن کی یہ پالیسی نہیں ہے، مجلس وحدت کے قائدین نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایسا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ اس پر راضی نہیں ہیں۔ ہماری پھر یہی درخواست ہے کہ اس سلسلے کو نیچے تک لے جائیں۔ آغا ساجد نقوی کا ایک مقام ہے، وہ ایک بزرگ عالم دین ہیں، ان کے ہزاروں کی تعداد میں شاگرد ہیں، کتنے ہی مدارس کے سرپرست ہیں۔

اُنکا کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین کے ذمہ دار افراد اپنی نجی محفلوں اور عمومی اجتماعات میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ نہ قائد بننا چاہتے ہیں اور نہ ہی قائد بننے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں، اسی لئے انہوں نے اپنی جماعت میں سب سے بڑا عہدہ بھی سیکریٹری جنرل کا رکھا ہوا ہے، اگر وہ ملت کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں تو بسم اللہ وہ کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہر ایک کا اپنا مقام ہے، اپنی عزت ہے، اختلاف نظر کا ہر کسی کو حق حاصل ہے، اختلاف نظر رکھیں، نقطہ اختلاف کو احترام کے الفاظ میں بیان کریں، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

اسلامی نظریانی کونسل کے رکن کا کہنا تھا کہ جب علامہ ساجد نقوی قاضی حسین احمد، فضل الرحمان اور سمیع الحق کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں تو وہ دوسروں کے ساتھ بھی بیٹھ سکتے ہیں۔ کوئٹہ سمیت کئی مقامات پر مجلس وحدت مسلمین کے افراد اور علامہ ساجد نقوی نے اکٹھے خطاب کیا ہے، کہیں بھی کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں شیعہ علماء کونسل کے سربراہ کی کال پر منعقدہ شیعہ علماء کانفرنس میں ایم ڈبلیو ایم کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا امین شہیدی صاحب آئے ہیں، یہ آنے جانے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے، ملاقاتیں ہونی چاہئی۔

ایک سوال کے جواب میں علامہ افتخار نقوی کا کہنا تھا کہ ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ وہ یہ کہے کہ وہ ولی فقیہ کا پیرو ہے اور کام کر رہا ہے، یہ حق اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ کون ولی فقیہ کا زیادہ پیرو ہے اور کون کم، اس کا فیصلہ اس کا عمل کرے گا۔ قوم کو چاہیے کہ وہ علماء کا ساتھ دیں اور علامہ سید ساجد علی نقوی کے ہاتھ مضبوط کریں، منفی باتوں سے پرہیز کیا جانا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 173677
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش