0
Friday 6 Jul 2012 23:16

یوم نفاذ فقہ جعفریہ فرقہ واریت کی نفی کا دن ہے، علامہ ساجد نقوی

یوم نفاذ فقہ جعفریہ فرقہ واریت کی نفی کا دن ہے، علامہ ساجد نقوی
اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل کے قائد اور ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے سینئر نائب صدر علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ اور عوام کے مذہبی و شہری حقوق کی جس جدوجہد کا آغاز ماضی میں بزرگان نے کیا اور پھر جسے مرحوم قائدین علامہ سید محمد دہلوی رہ، علامہ مفتی جعفر حسین رہ اور قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی رہ نے  آگے بڑھایا، ہم آج بھی انہی کی فکر سے الہام لیتے ہوئے اس جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس راستے میں معصوم قیمتی جانوں کی قربانیاں بھی جاری ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’’یوم نفاذ فقہ جعفریہ‘‘ کے موقع پر ملتان اور مظفر گڑھ میں منعقدہ مختلف اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 6 جولائی کا دن عوام کے ان جائز حقوق کے حصول کا دن ہے جو آئین نے تمام مکاتب فکر کو دئیے ہیں۔ یہ دن اتحاد و وحدت کے لیے سنگ میل تھا اور اس دن تمام مسالک اور مکاتب کے درمیان ایک دوسرے کے عقائد و نظریات اور رسوم و عبادات کے احترام کا دائرہ کار واضح اور مشخص کیا گیا۔ 

انہوں نے کہا کہ یہ دن قطعاً کسی ایک مسلک کی دوسرے مسلک کے خلاف محاذ آرائی نہیں تھی بلکہ اس وقت اسلامائزیشن کے جاری عمل میں وسعت نظری اختیار کرنے اور آئین کی پابندی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جبکہ تمام فقہوں کو مدنظر رکھ کر سب کے حقوق کی پاسداری کی طرف توجہ دلانا بھی مقصود تھا، لیکن بدقسمتی سے ملک کی پالیسی سازی کے مراکز پر حاوی کوتاہ نظروں نے اس طرف توجہ نہ دی اور غلط رپورٹوں کا سہارا لے کر زور آوری اختیار کی، علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ 6 جولائی 1980ء کے کنونشن میں عوام نے مطالبہ کیا کہ اسلامائزیشن کے عمل میں تمام مکاتب فکر کے عقائد و نظریات کا احترام اور ان کے شہری و مذہبی حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے انہیں مذہبی و شہری آزادیاں دی جائیں۔ اس مقصد کے لیے عوام نے سیکرٹریٹ کا محاصرہ کیا۔
 
ایس یو سی کے سربراہ نے کہا کہ اس پس منظر سے واضح ہے کہ یوم نفاذ فقہ جعفریہ فرقہ واریت کی نفی کا دن ہے۔ اس تاریخی دن بہت سے حقائق منظر عام پر آئے اور عوام کو ان کے ہمہ نوع حقوق کے حصول کا شعور ملا، کیونکہ اسلامائزیشن کے طریقہ کار پر اعتراض کرتے ہوئے عوام نے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں آئین کے تقاضوں کے مطابق شہری، مذہبی اور آئینی حقوق فراہم کئے جائیں اور قرآن وسنت اور آئین کو کسی ایک تشریح کا پابند نہ کیا جائے، تاکہ اسلام کی مختلف تعبیروں سے استفادہ کرتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق پاکستان کو ایک جدید اسلامی فلاحی ریاست بنایا جاسکے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ عوامی حقوق کے حصول کی جس جدوجہد کا آغاز 32 سال قبل کیا گیا تھا، وہ اب بھی جاری ہے، لیکن اب تک اس جدوجہد کے حقائق اور اصل مقاصد کا ادراک نہیں کیا گیا، بلکہ فرقہ پرست قوتوں کو پہلے مرحلے میں شہہ دی گئی کہ وہ پہلے پاکستان کو بدترین فرقہ واریت کی آماجگاہ بنائیں اور پھر دوسرے مرحلے میں اس فرقہ واریت کو تشدد اور دہشتگردی میں بدل دیں، تاکہ شیعہ عوام کے حقوق غصب کئے جاسکیں اور انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا جاسکے، انہوں نے کہا کہ چنانچہ ملک کی داخلی سلامتی کو خطرات سے دوچار کرنے کے اس منصوبے پر تسلسل سے عملدرآمد کے ذریعہ دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ اور قتل و غارتگری کا خونیں کھیل جاری ہے۔ 

قائد شیعہ علماء کونسل نے کہا کہ اس تمام صورتحال کے باوجود ہم نے اتحاد بین المسلمین اور وحدت امت کے لئے کوششیں جاری رکھیں اور عملی طور پر اتحاد کے لئے بننے والے تمام فورموں اور پلیٹ فارموں میں شریک رہے۔ اب بھی حالات اور اتحاد کا تقاضا ہے کہ آئین پاکستان میں تمام مکاتب فکر کو دئیے گئے حقوق کا احترام کیا جائے اور ایک دوسرے کے نظریات اور رسوم و عبادات پر اعتراض یا پابندی لگانے کی سوچ کا خاتمہ کیا جائے، تاکہ پاکستان میں اسلام کے عادلانہ نظام کی راہ ہموار ہوسکے اور لوگوں کی مشکلات دور ہوسکیں۔
خبر کا کوڈ : 177031
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش