0
Sunday 15 Jul 2012 15:09

رمضان سے قبل مہنگائی اور عوام کا حال

رمضان سے قبل مہنگائی اور عوام کا حال
اسلام ٹائمز۔ اسلامی سال کا نواں ماہ '' ماہ رمضان '' ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس ماہ مبارک میں کسی بھی اسلامی حکومت کی اولین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ عوام کو اشیائے ضروریہ سستی اور سہل انداز سے فراہم کی جائے لیکن اس کے باوجود ہر سال کی طرح امسال بھی پاکستان میں بالخصوص اور کراچی میں بالعموم ماہ مبارک میں مہنگائی کا طوفان سروں پر منڈلاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت سندھ نے گزشتہ دنوں ڈھائی ارب روپے کے رمضان پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت صوبے میں رمضان المبارک کے دوران 23 روپے فی کلو کے حساب سے آٹا فراہم کیا جائے گا۔ صوبائی محکمہ خوراک اس ضمن میں 2 لاکھ میٹرک ٹن گندم کا انتظام کرے گا۔ سستے آٹے کی فراہمی کے سلسلے میں حکومت سندھ کا اعلان خوش آئند ہے لیکن یہ منصوبہ کس حد تک کامیاب ہوگا اور کیسے تکمیل پائے گا۔۔۔۔؟ اور کیا رمضان المبارک میں غریبوں کے لئے صرف ستے آٹے کا اعلان کافی ہے۔

رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی تھوک مارکیٹ میں کھجور، پھل اور دیگر سبزیوں کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ منافع خوروں نے ماہ مبارک کو کمائی کا سیزن بنا رکھا ہے۔ ایسے میں 10 سے 12 گھنٹے کی ڈیوٹی کے عوض ماہانہ 7 سے 8 ہزار روپے کمانے والا مزدور افطاری کے لئے کھجور، پھل اور کھانے کے لئے سبزی خریدنے کی کیا سکت رکھے گا۔ ایک سروے کے دوران جب مرغی فروش سے چکن کے نرخ معلوم کئے تو پتا چلا کہ گزشتہ دنوں زندہ مرغی کے نرخ ریٹیل میں فی کلو 146 روپے تھے جبکہ اب 150 روپے ہو چکا ہے اس حساب سے گوشت 230 روپے کلو ریٹیل مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے جب مرغی فروش سے دریافت کیا گیا کہ کیا ماہ رمضان میں چکن کے نرخ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ قبل از وقت کچھ کہنا مشکل ہے لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ مزید اضافہ متوقع ہے۔

کریانہ اسٹور کے مالک سے ملاقات کے دوران معلوم ہوا کہ چینی گزشتہ دنوں 52 روپے فی کلو فروخت ہو رہی تھی جو اب 54 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے۔ اسی طرح اشرفی آٹا مارکیٹ میں 35 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔ رمضان سے قبل بیسن کے نرخ فی کلو 120 روپے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ہر چیز کے نرخ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہی صورتحال دال، چاول اور دیگر اشیائے خورد و نوش کی بھی ہے۔ رمضان المبارک میں متوقع مہنگائی کے حوالے سے جب عوام کے تاثرات معلوم کئے گئے تو ایک سیکیورٹی اہلکار سبز علی کہنے لگا کہ 12 گھنٹے ڈیوٹی کے عوض مجھے 7 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے جس سے ایک خاندان کی کفالت کرنا بڑا مشکل کام ہے، اگرچہ ماہ رمضان میں ہمیں کمپنی کی طرف سے بونس بھی ملتا ہے لیکن مہنگائی کے اس دور میں اگر ہم رہائش اور کھانے پینے کا معقول انتظام کرلیں تو بڑی بات ہے۔

جب بازار میں بیٹھنے والے ایک موچی گل خان سے یہی سوال کیا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ میں روز یہاں 200 سے 250 روپے دہاڑی لگاتا ہوں اور بڑی مشکل سے اپنے بیوی بچوں کی کفالت کرتا ہوں، نہ جانے رمضان میں ہمارا گزارا کیسے ہوگا؟ گارمنٹس فیکٹری کے ایک ملازم واجد اللہ سے جب رمضان میں متوقع مہنگائی کے حوالے سے اس کے تاثرات معلوم کئے گئے تو اس نے کہا کہ میں ماہانہ 8 ہزار روپے کماتا ہوں اور بڑی مشکل سے گھر کا خرچہ چلاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کہیں رمضان میں مہنگائی کا سیلاب ہمیں بہا نہ لے جائے۔ ایک بی ڈی ایس ڈاکٹر مظفر علی جو کہ ایک ڈینٹل کلینک میں فرائض سر انجام دے رہا ہے جب اس سے مہنگائی کے متعلق رائے طلب کی گئی تو وہ کہنے لگے کہ میں اچھی خاصی تنخواہ لیتا ہوں اور بہترین انداز سے گھر کی کفالت کر لیتا ہوں لیکن سوچتا ہوں کہ ماہ رمضان میں غریب عوام کا کیا بنے گا جو اب بھی دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 179302
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش