0
Saturday 18 Aug 2012 01:33

بلوچستان میں‌ محرومیوں‌ کا ازالہ کیا جائے

بلوچستان میں‌ محرومیوں‌ کا ازالہ کیا جائے

اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اور فاٹا امن و امان کے حوالے سے اس وقت بدترین حالات سے گزر رہے ہیں‌۔ بین الاقوامی طور پر اسٹریٹیجک اہمیت کے ان دونوں‌ علاقوں‌ میں‌ بدامنی کی اپنی اپنی وجوہات ہیں۔ بلوچستان 65 سال کا طویل پس منظر رکھنے والی مزاحمتی تحریک کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا شکار ہے ۔ تو فاٹا افغانستان میں‌ غیر ملکی مداخلت کے نتیجے میں‌ فروغ پانے والی دہشتگردی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔  برطانیہ کے ایک بین الاقوامی سطح کے سرکاری ادارے نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان اور شمالی مغربی سرحد پر واقع وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں‌ (فاٹا) کے بارے میں‌ ایک خفیہ گیلپ سروے کی رپورٹ حاصل کی ہے۔ جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بلوچستان کے 37 فیصد عوام آزادی چاہتے ہیں جبکہ 67 فیصد صوبائی خودمختاری کے حامی ہیں۔

سروے کے مطابق صوبے کی بڑی اکثریت آزادی کی مخالف ہے۔ فاٹا کی صورت حال کے بارے میں‌ بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے 41 فیصد عوام ماضی کے مقابلے میں آج فاٹا کو زیادہ غیر محفوظ سمجھتے ہیں جہاں شدت پسندی کے زور پکڑنے سے بے گناہ انسانوں‌ کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ سروے کے مطابق فاٹا کو اس حال تک پہنچانے میں‌ بنیادی کردار نیٹو کا ہے۔ پاکستان کے بارے میں غیر ملکی اور وہ بھی سرکاری سطح کے اداروں‌ کے گیلپ سروے خامیوں‌ سے مبرا نہیں‌ ہوتے۔ کیونکہ یہ حقائق سے زیادہ ان کی متعصبانہ سوچ اور خواہشات پرمبنی ہوتے ہیں۔ اس لئے ضروری نہیں کہ وہ سو فیصد درست ہوں لیکن انہیں یکسر نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔

سروے میں بلوچستان کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ صوبے کے 37 فیصد لوگ آزادی کے خواہاں ہیں۔ اس تعداد میں 12 فیصد پشتونوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ جن کے علاقوں میں علحیدگی کی کوئی بلند آہنگ سوچ ہے نہ تحریک چلائی جارہی ہے۔ یہ تحریک صرف بلوچ علاقوں میں ہے اور بلوچوں تک محدود ہے۔  شہری حقوق اور محرومیوں کے حوالے سے صوبے کی تقریباً 40 فیصد پشتون آبادی کے اپنے مسائل اور شدید تحفظات ہیں۔ جن کے ازالے کیلئے ان کی سیاسی خصوصاً قوم پرست پارٹیاں‌ مسلسل جدوجہد کر رہی ہیں۔ لیکن ریکارڈ کے مطابق ان میں‌ سے کسی نے بھی علحیدگی کا نعرہ بلند نہیں کیا۔ سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 79 فیصد بلوچ اور 53 فیصد پشتون صوبے کے سیاسی معاملات میں‌ موثر کنڑول کرنا چاہتے ہیں۔

اس سے قطع نظر کہ یہ اعداد و شمار کہاں تک درست ہیں۔ ایک بات واضح ہے کہ اسلام آباد کے طرز حکمرانی سے بلوچ خوش ہیں نہ پشتون اور نہ ہی کوئٹہ میں رہنے والی ہزارہ برادری۔ اس سے پورے بلوچستان میں‌ مایوسی، بے چینی اور بدگمانی پھیل رہی ہے۔ جو ملک کے وسیع تر اتحاد اور قومی یکجہتی کیلئے نقصان دہ ہے۔ بلوچستان کے بارے میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر قائم کئے جانے والے کمیشن، سرکاری ایجنسیوں‌ اور خود وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ صوبے میں 20 یا اس سے زائد غیر ملکی ایجنسیاں سرگرم عمل ہیں۔ جو نہ صرف پاکستان مخالف جذبات کو بھڑکا رہی ہیں بلکہ مزاحمتی تنظیموں‌ کو اسلحہ اور سرمایہ فراہم کرنے کا بڑا زریعہ بھی ہیں۔
 
مزاحمت کاروں اور انکے لیڈروں کی گرفتاریوں‌ اور ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانے میں پھینکنے کے واقعات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اور صوبے کے بلوچ علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ، حساس مقامات، تنصیبات اور سیکورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ حکومت مسئلے کے عملی حل کی بجائے کمیٹیوں پر کمیٹیاں بنا رہی ہے۔ اس وقت بھی ایک خصوصی کمیٹی وزیر دفاع نوید قمر کی سربراہی میں کام کر رہی ہے۔ جس نے کوئٹہ کی مختلف پارٹیوں، تنظیموں‌ اور شخصیات سے رابطے کئے۔ بلوچ قوم پرست پارٹیوں کے لیڈروں نے کمیٹی کے ارکان سے ملاقات کی دعوت مسترد کردی کیونکہ ان کے خیال میں جب تک زیادتیوں‌ کا ازالہ کرکے ماحول کو سازگارن ہیں بنایا جاتا اس وقت تک ایسی نشست و برخاست کا کوئی فائدہ نہیں۔

پچھلے چھے عشروں کے دوران کسی حکومت نے بلوچستان کے مسئلے کو صحیح تناظر میں سمجھنے اور اسکا قابل قبول حل نکالنے پر توجہ ہی نہیں دی۔ صوبے کے عوام کے ساتھ جو زیادتیاں‌ روا رکھی گئی ہیں ان میں ہر حکومت اور ہربرسر اقتدار پارٹی نے اپنا حصہ ضرور ڈالا ہے۔ بلند بانگ دعوؤں کے برخلاف عوام کا احساس محرومی دور کرنے اور پسماندگی کے خاتمے کے نام پر جتنے بھی منصوبوں کا اعلان کیا گیا زمین پر ان کے ثمرات کم ہی نظر آئے۔

سینڈک اور ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے کھربوں روپے کے زخائر ہیں۔ جن کی تلاش کے منصوبے آج بھی تنازعات کی زد میں ہیں۔ آغاز حقوق بلوچستان پیکج کا بڑا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے مگر خود صوبائی حکام کے مطابق اس پر پندرہ فیصد بھی عمل نہیں ہوا جبکہ حکومت 85 فیصد عملدرآمد کا دعویٰ کر رہی ہے۔ بد امنی کی وجہ سے دوسرے صوبوں کے اساتذہ واپس چلے گئے ہیں۔ جسکی وجہ سے اندرون بلوچستان تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں۔ کوئلے کی کانیں مزدوروں‌ کے اغواء اور قتل کی وارداتوں کے بعد بند ہو رہی ہیں کیونکہ مزدور کام چھوڈ کر اپنے علاقوں میں چلے گئے ہیں۔
 
مقامی وسائل پر مبنی کوئی صنعت صوبے میں‌ قائم نہیں کی گئی۔ بیروزگاری کے ستائے ہوئے نوجوان مزاحمتی تنظیموں‌ میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ وفاقی حکومت عوام کی جائز شکایتیں دور کرنے کیلئے عملی اقدامات کرے۔ دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو بھی بلوچستان کی بدحالی دور کرنے کیلئے اپنے اپنے بجٹ سے معقول فنڈز فراہم کرنے چائیں۔ کیونکہ بلوچستان کی خوشحالی میں سب کی خوشحالی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی و عسکری قیادت کو بلوچستان کے ناراض عناصر اور سیاسی پارٹیوں سے گفت و شنید کے زریعے امن کی راہ ہموار کرنی چاہیئے۔

اس معاملے میں اب مزید تاخیر تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ بلوچستان کے عوام کی بھاری اکثریت محب وطن اور وفاق پاکستان کی حامی ہے۔ اس سے پہلے کے بین الاقوامی قوتیں اپنی سازشوں کے زریعے بلوچستان میں کوئی کھیل کھیلنے میں کامیاب ہوجائیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو باہم صلاح مشورے سے بلوچستان کے حالات معمول پر لانے کی تدبیر کرنی چاہیئے۔

خبر کا کوڈ : 188059
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش