0
Monday 20 Aug 2012 07:43
عیدالفطر کے موقع پر خصوصی رپورٹ

شہداء سانحہ اسپتال ڈی آئی خان کی برسی، لواحقین کو آج اپنوں کی یاد ضرور آئیگی

شہداء سانحہ اسپتال ڈی آئی خان کی برسی، لواحقین کو آج اپنوں کی یاد ضرور آئیگی
ڈیرہ اسماعیل خان کا شمار ملک کے ان مقامات میں ہوتا ہے جہاں مکتب اہل بیت (ع) کے پیروکاروں کا خون پانی کا طرح بہایا گیا، کبھی ٹارگٹ کلنگ تو کبھی بم دھماکے ہوئے، کسی کے گھر پر دستی بم سے حملہ کیا گیا تو کہیں خودکش حملہ میں کئی گھروں کے چراغ گل کر دیئے گئے، اس بدقسمت شہر میں بوڑھوں کے کاندھے جوانوں کے نعشے اٹھا اٹھا کر تھک گئے، مائیں آج بھی اپنے ان کڑیل جوان بچوں کے انتظار میں دروازے پر نگاہیں جمائے بیٹھی ہیں جن کے جسموں کو خونخوار دہشتگردوں نے بم دھماکوں کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، آج بھی کوئی بہن اپنے اس بھائی کا سہرا دیکھ سسکیاں بھر بھر کر روتی ہے جو اب منوں مٹی تلے دب چکا ہے۔ 

آج بھی کوئی بیوہ اپنے سہاگ کی یاد میں زندہ نعش بنی بیٹھی ہے، آج بھی شائد کوئی معصوم بچہ اپنی ماں سے سوال کرتا ہو کہ ’’ماں، بابا کب آئیں گے، دادا ابو کہتے ہیں شہید زندہ ہوتا ہے، میرے بابا بھی شہید ہوئے ہیں ناں، وہ کب آئیں گے، میں اب کھلونوں کی ضد نہیں کروں گا، بس ایک مرتبہ بابا جانی کو بلا دیں۔‘‘ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایسی کئی دلخراش داستانیں رقم ہوچکی ہیں، جن میں سے ایک داستان آج سے 4 سال قبل پیش آنے والے ایک سانحہ کی ہے، 19 اگست 2008ء کا دن ڈیرہ اسماعیل خان کے شہریوں کیلئے کسی قیامت سے کم نہ تھا، اس روز صبح کے وقت باسط زیدی نامی ایک شہری کو دو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔
 
جب ان کی نعش ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ٹیچنگ اسپتال ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کی گئی تو ان کے کئی رشتہ دار اور دوست احباب اسپتال پہنچ گئے، اسی دوران ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکہ سے اڑا دیا، جس کے نتیجے میں 35 افراد شہید ہوگئے جبکہ 60 سے زائد بے گناہ شہری زخمی ہوگئے، دھماکے کے بعد ہر طرف شہید ہونے والوں کے اعضاء بکھرگئے اور قیامت صغریٰ کا منظر تھا۔ اس خودکش حملہ میں ایک ہی خاندان کے 20 افراد شہید ہوئے۔ سرکاری اسپتال میں مناسب طبی امداد مہیا نہ کئے جانے کے باعث زخمیوں کو پرائیویٹ اسپتالوں اور کلینکوں میں منتقل کر دیا گیا گیا۔ بعض خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق خودکش حملہ کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی، جبکہ بی بی سی کے مطابق اس حملہ کی ذمہ داری لشکر جھنگوی العالمی نے قبول کی۔

یہ ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخ کا پہلا خودکش حملہ تھا، جس نے شہر کی فضاء کو کئی دنوں کیلئے سوگوار کر دیا، تاہم اس دھماکہ کے بعد بھی اہل تشیع کے قتل عام کا سلسلہ جاری رہا، ذرائع کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگردی کی مختلف کارروائیوں میں تحریک طالبان اور کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے دہشتگردوں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے، بعض کیخلاف مقدمات بھی درج کروائے گئے، تاہم ہمیشہ کی طرح نتیجہ وہی رہا جس سے دہشتگردوں کو فائدہ پہنچا اور مظلوم انصاف کیلئے بھٹکتا رہا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپتال دھماکہ کے مقدمہ میں نیاز اللہ نامی دہشتگرد بھی نامزد تھا، جس کا تعلق ایک کالعدم تنظیم سے ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اسے گرفتار کیا، تاہم کچھ عرصہ بعد اسے رہا کر دیا گیا اور آج وہ دہشتگرد آزاد گھوم رہا ہے۔ اور نہ ہی مقدمہ میں اب تک چالان مکمل ہوسکا ہے۔

سانحہ میں زخمی ہونے والے درجنوں افراد اب بھی معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے سانحہ اسپتال ڈیرہ اسماعیل خان کے شہداء کی چوتھی برسی اور عید الفطر کے موقع پر ان عظیم شہداء کی یادیں تازہ کرنے کا اہتمام کیا ہے، تاکہ ان شہداء کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے اور زخمی ہونے والوں کو بھی یاد رکھا جائے، اس سانحہ میں زخمی ہوکر عمر بھر کیلئے معذور ہونے والے دو باہمت افراد سید انصر عباس زیدی اور مرید اصغر کی اسپتال دھماکہ سے متعلق خصوصی بات چیت پیش کی جا رہی ہے، جن کا حوصلہ آج بھی ہمالیہ کی چوٹیوں کی طرح بلند اور عزم چٹان کی طرح مضبوط ہے۔

سید انصر عباس:
نوجوان سید انصر عباس اس سانحہ میں اپنے دونوں بازو گنوا چکے ہیں، انہوں نے ماس کمیونیکیشن میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے، اپنے بازوں سے محروم ہونے کے باوجود انہوں نے علم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا، سید انصر عباس نے سانحہ اسپتال کا احوال بیان کرتے ہوئے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا کہ 19 اگست 2008ء کے روز سید باسط زیدی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا، جب ان کے گائوں کے تقریباً ڈیڑھ، دو سو کے قریب افراد اسپتال میں جمع ہوئے تو اسی دوران خودکش حملہ ہوا گیا، جس میں 35 افراد شہید ہوگئے، جبکہ تقریباً 60، 70 کے قریب لوگ زخمی ہوئے، شہید ہونے والے 20 افراد کا تعلق ایک ہی زیدی سادات خاندان سے تھا۔ اس سانحہ میں میرے سمیت میرے کئی رشتہ دار زخمی بھی ہوئے۔

انصر عباس کا کہنا تھا کہ جب دھماکہ ہوا تو میں مکمل ہوش میں تھا، مگر زخمی ہوا تھا، ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈاکٹرز اتنا زیادہ تعاون نہیں کر رہے تھے، یہاں سے پھر مجھے بھکر منتقل کیا گیا، اور پھر بھکر سے مجھ سمیت تین چار زخمیوں کو اسلام آباد لیجایا گیا، جبکہ باقی کئی زخمیوں کو نشتر اسپتال ملتان شفٹ کیا گیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں اہلبیت (ع) نے صبر کا درس دیا ہے، اکثر دہشتگردی کے واقعات میں شیعہ سنی مسئلہ کا تاثر دیا جاتا ہے، میں یہ کہوں گا کہ ہمارا دشمن مشترکہ ہے، ہمیں صرف پہچاننے میں مشکل پیش آ رہی ہے، مجھے زخمی ہونے کے بعد سب سے پہلے ایک اہل سنت بھائی نے خون دیا، اور میری مدد اہل سنت دوستوں نے زیادہ کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، دشمن ہم سب کو نقصان پہنچانا چاہ رہے ہیں، کیونکہ وہ اصل میں پاکستان کے دشمن ہیں۔ 

اس سانحہ میں زخمی ہونے والے ایک اور باہمت شخص مرید اصغر بھی ہیں، جو سانحہ اسپتال کو کبھی بھلا نہیں سکیں گے، ان کا بنیادی تعلق تو ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے لیکن کاروبار کے سلسلے میں اکثر وقت بھکر میں گزارتے تھے، اسپتال خودکش حملہ میں مرید اصغر کو اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہونا پڑا، اس سانحہ سے متعلق مرید اصغر کی ’’اسلام ٹائمز‘‘ کے ساتھ ہونے والی بات چیت درج ذیل ہے۔

مرید اصغر:
اسپتال دھماکہ میں زخمی ہونے والے مرید اصغر کا کہنا تھا کہ 19 گست 2008ء کو مجھے خبر ملی کہ یوٹیلٹی سٹور کے ملازم باسط زیدی کو قتل کر دیا گیا ہے، اس وقت میں بھکر میں تھا، مجھے جب ان کے زخمی ہونے کی خبر ملی میں فوری طور پر ڈیرہ اسماعیل خان اسپتال پہنچا، میں نے موٹر سائیکل کھڑی کی اور جیسے ہی شعبہ ایمرجسنی کے صحن میں پہنچا تو دھماکہ ہوگیا، اس وقت مجھے احساس نہیں ہوا کہ میں زیادہ زخمی ہوا ہوں، کیونکہ میں مکمل ہوش و ہواس میں تھا، میں نے اپنے دیگر دوستوں تک پہنچنے کی کوشش بھی کی، جب مجھے آپریشن تھیٹر میں لیکر گئے تو اس وقت میری ٹانگ سے صرف خون بہہ رہا تھا، میں نے ڈاکٹروں سے کہا میں بالکل ٹھیک ہوں، آپ زیادہ زخمی ہونے والوں کو دیکھیں۔

مرید اصغر نے مزید بتایا کہ شام کو معلوم ہوا کہ میری ٹانگ تین جگہ سے ڈیمج ہے، ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ ملتان پہنچنے کی کوشش کریں، جب ملتان گئے تو ڈاکٹروں نے دیکھ کر کہا کہ آپ نے آنے میں بہت دیر کر دی ہے، پھر انہوں نے آپریشن کرکے میری ٹانگ کاٹ دی، مرید اصغر نے کہا کہ ہم شہداء کی برسی کے موقع پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جس طرح الحمد اللہ ہماری ملت اپنے شہداء پر فخر کرتی ہے ہمیں بھی ان شہداء پر فخر ہے، قوم میں شہداء کیلئے احساس پیدا ہونا چاہئے، جس طرح گزشتہ تین، چار دنوں سے جو افسوسناک واقعات ہو رہے ہیں، قوم کو بیدار ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں عید کے موقع پر بھی نعشوں کے تحفے دیئے جا رہے ہیں، کراچی میں بھی ہماری ہی گرفتاریاں کی جا رہی ہیں، قوم میں احساس اور بیداری ہونی چاہئے، تاہم اب جیسے کہ کئی فورمز سے کوششیں کی جا رہی ہیں امید ہے کہ بہتری آئے گی، میں بہت پرامید ہوں۔ سانحہ ڈیرہ اسماعیل خان میں زخمی ہونے والے سید انصر عباس اور مرید اصغر کی باہمت اور بلند حوصلہ گفتگو کو سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ دہشتگرد ہرگز اپنا خوف اس غیور اور شجاع ملت کے ذہن میں نہیں ڈال سکتے۔ 

سانحہ اسپتال ڈیرہ اسماعیل خان میں شہید ہونے والے یقیناً بظاہر آج اپنوں کے ساتھ عید کے اس پرمسرت موقع پر نہیں ہونگے، لیکن ان کی یادیں اپنے پیاروں کو آج آنسو ضرور رلائیں گی، جب ان شہداء کے لواحقین کو اپنے ان پیاروں کیساتھ منائی گئی عیدوں کے لمحات یاد آئیں گے تو شائد آج پھر کسی باپ کی آنکھ بھر آئے، کسی ماں کی گود اپنے بچے کو پکارے، کوئی بہن شائد پھر چھپ چھپ کر آنسو بہائے، کسی بیوہ کی گود میں رکھا شادی کا جوڑا شائد پھر اشکوں سے بھیگ جائے اور شائد! آج پھر کوئی ننھا معصوم اپنے بابا سے ملنے کی ضد کرے۔
خبر کا کوڈ : 188753
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش