0
Tuesday 21 Aug 2012 09:56

شہداء کو سپاس عقیدت اور انکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیلئے عید الفطر سادگی سے منائی جائے، حامد موسوی

شہداء کو سپاس عقیدت اور انکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیلئے عید الفطر سادگی سے منائی جائے، حامد موسوی
اسلام ٹائمز۔ آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے تمام اہل وطن سے اپیل کی ہے کہ سانحہ لولو سر ناران، شہدائے گلگت و بلتستان و سانحہ کامرہ اور کراچی، کوئٹہ، خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کا نشانہ بننے والے فرزندان دین و وطن کو سپاس عقیدت اور انکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیلئے عید الفطر سادگی سے منائی جائے اور شہداء کی بلندی درجات اور دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے دعائیں کی جائیں۔ حکمرانوں کا کام محض خطرات کا بتانا نہیں بلکہ ان خطرات سے قوم کو بچانا ہوتا ہے بدقسمتی سے پاکستانی حکمران خطرات کی وارننگ دیکر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو جاتے ہیں، حکمران لولو سر ناران اور سانحہ کامرہ سمیت تمام سانحات کے مجرموں کو گرفتار کرکے کیفرکردا ر تک پہنچائیں،اہل اسلام و پاکستان کی حقیقی عید اسی روز ہوگی جب ظالمین اپنے انجام کو پہنچیں گے کشمیر فلسطین عراق بحرین سمیت دنیا بھر کے مظلوموں کے حقوق بازیاب ہوں گے اور پوری دنیا پر اسلام کا پھریرا لہرائے گااور ہر سو امن کا دور دورہ ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے عید الفطر کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کا فرمان ہے کہ کہ انما ھو عید لمن قبل اللہ صیامہ و شکر قیامہ و کل یوم لا یعصی اللہ فیہ فھو عید (نہج البلاغہ) عید صرف اس کیلئے ہے جس کے روزوں کو اللہ نے قبولیت کا شرف بخشا اور اسکی نماز کو قدر و منزلت سے دیکھا اور ہر وہ روز جس روز اللہ کی معصیت نہ کی جائے وہی عید ہے۔ آج امت مسلمہ اور پاکستان کے باسی ایسے موقع پر عید ادا کررہے ہیں کہ ہر سو ظلم و بربریت اور جبرو استبداد کا بازار گرم ہے، ڈرون حملوں دھماکوں خود کش حملے اور قتل و غارت ٹارگٹ کلنگ نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے کوئی دن ایسا نہیں جو وطن عزیز کے باسیوں نے امن و سکون سے گزارا ہو۔ خیبر پختونخوا، کراچی، کوئٹہ میں دہشتگردی کے پے درپے سانحات کے بعد دو دن پہلے لولوسر ناران میں بسوں پر روزہ دار مسافروں کو چن چن کر قتل کرنے سے بڑی درندگی کیا ہوگی۔ یہ سب جرم ضعیفی کی سزا ہے استعماری سرغنہ مسلمانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور حکمرانوں و سیاستدانوں کی غلط پالیسیاں اس کے مقاصد کو تقویت پہنچارہی ہیں جو عصبیتیں ابھار کر مسلمانوں کو پارہ پارہ کر دینا چاہتا ہے۔

آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے مزید کہا کہ گھر سے لے کر مسجد، عام دفاتر سے لے کر جی ایچ کیو اور دیہات و قصبوں سے لے کر وفاقی دارالحکومت تک کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ کبھی سنی، کبھی بریلوی، کبھی شیعہ، کبھی اقلیتیں، کبھی مختلف زبانیں بولنے والے اور کبھی مختلف صوبوں میں رہنے والا اسکا نشانہ بن رہے ہیں۔ لسانیت، گروہیت، فرقہ واریت کو ابھار کر دشمن مسلمانوں کی طاقت ختم کردینا چاہتا ہے لیکن صد شکر کہ قوم نے ہر مرحلے پر ثابت کیا کہ کسی مسلک، مکتب، صوبہ پر حملہ اسلام اور پاکستان پر حملہ ہے اور دنیا کی کوئی ابلیسی طاقت و ایجنٹ ہم میں تفریق پیدا نہیں کرسکتا اور جو بھی مسلمانوں میں تفریق پیدا کرے وہ سنی شیعہ، بریلوی نہیں بلکہ ابلیسی قوتوں کا ایجنٹ و آلہ کار ہے۔

آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے کہا کہ اقوام و ملل حتی کہ قبائل و عشائر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہر قوم ہر ملت ہر قبلہ و عشیرہ کے ہاں کوئی نہ کوئی ایسا دن ضرور ہوتا ہے جو کسی تاریخی حیثیت کی بناء پر یاد گار گردانا جاتا ہے اور اس دن رونما ہونے والے واقعات کا تذکرہ کرکے اقوام عالم اپنے کلچر و رسم و رواج کے مطابق اس دن نہ صرف خوشی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اپنے لیے عید قرار دیتے ہیں۔ تاریخ دین وشریعت پر اگر نظر ڈالی جائے تو جس دن آدم ؑ کی توبہ قبول ہوئی، نوح ؑ کی کشتی کنارے لگی، نار نمرود حضرت ابراہیم ؑ کیلئے گلزار بنی۔ حضرت موسیٰ نے فرعون پر غلبہ پایا، حضرت یونس ؑ شکم ماہی سے زندہ رہا ہوئے یقیناً یہ دن ان کے محبین کیلئے عید کے دن تھے۔ اسی طرح جب حضرت عیسیٰ روح اللہ پر مائدہ نازل ہوا تو اس دن کو عید ٹھہرایا گیا۔ اور قرآن میں ارشاد ہوا اے ہمارے پروردگار تو ہم پر آسمان سے مائدہ نازل فرما جو ہمارے لیے عید قرار پائے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام جو پسندیدہ ترین اور تمام انبیائے ما سلف کا دین ہے اس کے ہاں بھی جہاں بہت سی یادگاروں کا سلسلہ جاری ہے ان میں عید الفطر جو ماہ رمضان کے اختتام پر شوال کی پہلی تاریخ کو فریضہ صیام سے عہدہ برآء ہونے پر اللہ تعالیٰ کے حضور اظہار تشکر کے طور پر منائی جاتی ہے۔ ماہ رمضان اللہ کا مہینہ اور توبہ مغفرت و نجات کا مہینہ ہے جسے تمام مہینوں سے برتر کہا گیا ہے۔ اس میں روزہ فرض کیا گیا ہے اور قرآن کو نازل فرمایا گیا جو انسانیت کیلئے سرچشمہ رشد و ہدایت ہے۔ اسی مہینہ میں لیلۃ القدر کو رکھا گیا جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جس میں اذن الہی سے تمام امور لے کرملائکہ اور روح القدس کا نزول ہوتا ہے اور یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہے۔ ا س مہینے کے بارے میں کہا گیا کہ جنہوں نے فرائض و واجب صحیح معنوں میں ادا کیے گئے انہیں اس مہینے کو الوداع کہنا چاہیئے تاکہ صائم النہار لوگوں کے حسنات میں مزید اضافہ ہواور وہ رحمت و مغفرت کے اہل قرارپائیں اور الوداع ہمیشہ عظیم ترین شخصیات اور چیزوں کو ہی کیا جاتا ہے۔

مشہور صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ارشاد فرماتے ہیں کہ میں ماہ رمضان جمعۃ الوداع کے روز رسالت مآب ؐ کی خدمت میں حاضر ہو ا حضور ؐ نے مجھ دیکھ کر فرمایا اے جابر یہ رمضان کا آخری جمعہ ہے لہذا اسے الوداع کرو اور یہ کہو اے اللہ اسے ہمارے روزوں کا آخری زمانہ قرارنہ دے اور اگر تو نے قراردیا ہے تو ہمیں اپنے نعمت سے سرفراز کر اور محروم نہ کرجو شخص یہ کلمات کہے گا تو دو حسنات میں سے ایک حسنہ کو ضرور پائیگا۔ یا آنے والا ماہ رمضان اسکو نصیب ہوگا یا اللہ کی مغفرت، رحمت اسکے شامل حال ہوگی۔ یہ دعا ماہ رمضان کی آخری شب کو بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ (مفتاتیح الجنان شیخ محمد عباس قمی و دیگر کتب ادعیہ)۔

آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے کہا کہ اس عید میں ہر مستطیع پر ایک مخصوص مقدار فطرہ کی ادائیگی واجب کردی گئی ہے کہ وہ مستحقین تک پہنچایا جائے کیونکہ ہم س علی ؑ ابن ابی طالب ؑ کے پیروکار ہیں جن کے بارے میں جب یہ کہا گیا کہ آپ ؑ کس طرح نان جویں والی خوراک کھاتے ہیں اور آپ ؑ نے یہ کیسی حالت بنا رکھی ہے تو آپ ؑ نے فرمایا کیف اشبع حولی بطون الغرثیٰ علی ؑ کیسے سیر ہوسکتا ہے جب اسکے گرد و پیش خالی پیٹ لوگ موجود ہوں۔ یہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کیلئے سبق ہے کہ مولائے کائنات اور حاکم وقت ہونے کے باوجود علی ابن ابی طالب ؑ اہل استحقاق و غرباء کا کس قدر خیال رکھتے تھے۔

آقای موسوی نے کہا کہ یہ انتہائی حکمت آمیز موقع شناسی ہے کہ اللہ نے عید الفطر کے موقع پر فقراء، مساکین، مظلومین اور غرباء کی اعانت واجب قراردی ہے۔ اس فطرانہ کی ادائیگی کے بعد دوگانہ نماز عید سے اس روز کا آغاز کیا جاتا ہے جس میں شہر والے جمع ہوکر اجتماعی شان، اتحاد ملی اور دینی و اسلامی اخوت و بھائی چارے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ خطبات عید کے بعد ایک دوسرے سے مصافحہ اورمعانقہ کرکے یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے اور ہمارے دکھ، درد، غم سانجھے ہیں پھر سارا دن رنجشوں، کدورتوں، نفرتوں اور عداوتوں کو ایک دوسرے سے ملاقات کرکے دور کرنے کی جدوجہد کی جاتی ہے حقیقی معنوں میں عید یہی ہے کہ انسان اپنے باطن کو ہر قسم کی لغزشوں، نجاستوں، کدورتوں سے صاف کر دے۔
خبر کا کوڈ : 188909
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش