0
Tuesday 11 Sep 2012 12:16

مقبوضہ کشمیر، 2005ء کے زلزلہ متاثرین حکومتی معاونت کیلئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور

مقبوضہ کشمیر، 2005ء کے زلزلہ متاثرین حکومتی معاونت کیلئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور
رپورٹ: جاوید عباس رضوی

8 اکتوبر 2005ء کے قیامت خیر اور تباہ کن زلزلے کا نام سن کر آج بھی سرحد کے آر پار کے لوگ دہشت کے مارے سہم کر رہ جاتے ہیں، اس خوفناک زلزلے نے ہزاروں لوگوں کو نہ صرف سوگوار بنا دیا بلکہ اپاہجوں اور محتاجوں کی بھرمار پیدا کر دی، جنہوں نے اس قدرتی آفات میں اپنا سب کچھ گنوا دیا، 7 سال گزرنے کے باوجود آج بھی ان ستم زدگان کی ایک بڑی تعداد حکومتی امداد کے حصول کیلئے در در کی ٹھوکریں کھاتی نظر آتی ہے، متاثرین میں بالخصوص ان افراد کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے جو ناگہانی آفت میں عمر بھر کیلئے معذور ہوئے ہیں، قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر کی اُس وقت کی حکومت نے شدید زخمی افراد کو 75 ہزار روپے دینے کا اعلان کیا تھا جبکہ جو لوگ معمولی زخمی ہوئے تھے انہیں 25 ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن متاثرین کی ایک بڑی تعداد کو ابھی تک معاوضہ فراہم نہیں کیا گیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے سرحدی علاقہ درکوٹ کرناہ کے منظور احمد کھوکھر نامی شہری جس کی اہلیہ 2005ء کے تباہ کن زلزلے میں مکمل طور معذور ہوگئی ہے، نے اسلام ٹائمز کو بتایا کہ اس زلزلے میں میرا آشیانہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا، ایک بیٹی اور ایک بیٹا زلزلے کی زد میں آکر لقمہ اجل بن گئے جبکہ بیوی نسیمہ بیگم پر مکان کے پتھر گرنے سے اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گی، منظور احمد کا کہنا ہے کہ جو پیسہ اس دوران اُسے اس کے بچوں کے فوت ہونے کی وجہ سے ملا وہ اس نے بیوی کے علاج پر خرچ کیا، پھر بھی اس کا علاج نہ ہو سکا، لیکن بیوی کے زخمی ہونے کے باوجود اسے سرکاری دفاتر کے کئی چکر لگانے پر صرف 25 ہزار روپے دیئے گے اور باقی پیسے کا انہیں انتظار ہے۔
 
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کئی مرتبہ اپنی اہلیہ کے آپریشن بھی کرائے، تاہم تمام کوششوں کے باوجود بھی وہ ٹھیک نہ ہوسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک فورتھ کلاس ملازم ہیں، محکمہ پی ڈی ڈی میں وہ صرف 5 ہزار روپے تنخواہ لیتے ہیں، اور اپنی تنخواہ سے اپنے چار بچوں اور ایک اپاہچ بیوی کا پیٹ بڑی مشکل سے پالتے ہیں، منظور احمد نے کہا کہ اس نے اپنی بیوی پر آج تک ایک ایک پیسہ جمع کرکے 5 لاکھ روپے خرچ کئے ہیں۔
 
منظور احمد نے کہا کہ زلزلے کے بعد کرناہ میں درجنوں سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں نے قدرے کام کیا، لیکن کسی تنظیم نے زخمی افراد کی طرف دھیان نہیں دیا اور نہ ہی کوئی مالی مدد کی، اسی طرح گھنڈی گجرہ کرناہ کی بیگم جان کہ جس کا مکان زلزلہ کے نتیجے میں مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے اور اس کی کمر بھی زلزلے میں ٹوٹ گئی ہے، کو بھی صرف 25 ہزار روپے سرکار کی طرف سے معاوضہ ملا، باقی پیسے کا اُسے بھی انتظار ہے، بیگم جان بھی اس وقت اپنے گھر والوں کے رحم کرم پر ہے اور اس کی حالت دن بہ دن بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

بیگم جان کے بھی دو بیٹے اس قیامت خیر زلزلے میں لقمہ اجل بن گئے تھے، جبکہ خود بیگم جان اپاہچ ہوگئی، بیگم جان کے شوہر نورالدین کا کہنا ہے کہ وہ ایک غریب شخص ہے اور اس کے پاس بیوی کے علاج کیلئے ایک پائی بھی نہیں ہے، زلزلے کے متعدد متاثرین نے اپنی روداد سناتے ہوئے بھارتی انتظامیہ پر انکی معاونت کرنے کے حوالے سے وعدہ خلافیوں کے الزامات عائد کئے اور کہا کہ بھارتی حکام ہماری حالت صرف نظر کئے ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 193670
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش